بارے زحل کے!!! — ڈاکٹر حفیظ الحسن

نظامِ شمسی کا چھٹا سیارہ اور مشتری کے بعد سائز میں دوسرے نمبر پر۔ قدیم زمانوں سے انسان اس سیارے کو دیکھتے آئے جو اسمانوں میں چمکتا اور سال بھر اپنی جگہ بدلتا۔

مگر جب سترویں صدی کے آغاز پر دوربین ایجاد ہوئی اور اسے دیکھا گیا تو اس سیارے کے ساتھ بڑے علاقے تک پھیلے روشن رِنگز تھے۔ زحل دراصل گیس جائینٹ ہے۔ اسکی کوئی ٹھوس سطح نہیں ہے۔ یعنی یہ گیسوں سے بنا ہے۔ ویسے ہی جیسے مشتری ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بنا ہے۔

ہماری زمین کا محض ایک چاند ہے جبکہ زحل کے چاند ہیں 83۔ ان میں سب سے بڑا چاند کے ٹائٹن۔ یہ زمین کے چاند سے تقریباً ڈیڑھ گنا بڑا ہے۔ گو زحل پر زندگی ہونا ناممکن ہے مگر اسکے مختلف چاندوں پر پانی اور نامیاتی مالیکولز ملے ہیں جو زندگی کے لیے ضروری ہیں۔

زحل کے رنگز دراصل مختلف سائز کی خلائی چٹانیں ہیں جنکا سائز زمین پر کسی اوسط پہاڑ کے سائز سے لیکر چند سینٹی میٹر تک ہے۔ یہ رنگز زحل سے 2 لاکھ 82 ہزار کلومیٹر اوپر تک کے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ زحل کے رنگز کائناتی عمر کے اعتبار سے ابھی ابھی بنے ہیں۔ یعنی محض چند کروڑ سال قبل۔ ہم یہ کیسے جانتے ہیں؟ کمپیوٹر ماڈلز اور ان چٹانوں کی ساخت کو جان کر۔

زحل اپنے مدار میں ایک چکر 10.7 گھنٹوں میں مکمل کرتا ہے گویا اس پر ایک دن زمین کے آدھے دن سے بھی کم ہے۔ جبکہ سورج کے گرد یہ ایک چکر 29.4 زمینی سالوں میں مکمل کرتا ہے۔ زحل کی کثافت پانی سے کم ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ اگر زحل کو زحل سے سائز میں بڑے کسی سمندر میں پھنیکا جائے تو یہ تیرنے لگے گا۔

2004 تک ناسا کے تین سپیس کرافٹ زحل کے قریب سے گزرے اور اسکی تصاویر زمین تک بھیجیں۔ مگر 2004 میں ناسا کا کاسینی سپیس کرافٹ زحل کے مدار میں داخل ہوا جسکے بعد سائنسدانوں کو زحل کا بہتر تجزیہ کرنے کا موقع ملا۔ اس سپیس کرافٹ کے ساتھ ایک سپیس پراب ہیوگن بھی تھا جو 2005 میں زحل کے سب سے بڑے چاند ٹائٹن ہر اُترا۔ اس پر کئی سائنسی الات نصب تھے اور یہ انسانوں کا کسی دوسرے سیارے کے چاند پر پہلا کامیاب مشن تھا۔ یہ پراب محض 72 منٹ تک ٹائٹن کی سطح پر کام کرتا رہا۔ البتہ کاسینی سپیس کرافٹ 13 سال تک زحل کے گرد مدار میں رہا اور اسکی فضا کا تفصیلی جائزہ لیتا رہا۔ ستمبر 2017 میں یہ اپنے مدار سے نکلا اور زحل کے اندر گر کر تباہ ہو گیا۔ اب 2026 میں ناسا زحل کے اس چاند ٹائیٹن تک ایک اور سپیس کرافٹ بھیجے گا جسکا نام ڈریگن فلائی ہو گا اور یہ 2034 میں اسکی سطح پر اُترے گا اور یہاں زندگی کے آثار ڈھونڈے گا۔

Comments are closed.