برطانیہ میں نسل پرستی کی لہر: اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ

0
115

لندن: برطانیہ میں حالیہ دنوں میں نسل پرستی کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آئی ہے، جس میں سفید فام انتہا پسند گروہوں کی جانب سے ایشیائی اور افریقی نژاد شہریوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ واقعات برطانوی معاشرے میں موجود نسلی تناؤ اور عدم برداشت کو ظاہر کرتے ہیں .برطانوی پولیس نے اس صورتحال کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے فوری کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ حکام کے مطابق، اب تک 250 سے زائد مشتبہ حملہ آوروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جبکہ 500 سے زائد افراد کی نشاندہی کر لی گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا اشارہ ہیں کہ یہ حملے منظم اور وسیع پیمانے پر ہو رہے ہیں۔ان حملوں کے پیچھے انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کا ہاتھ بتایا جا رہا ہے۔ یہ گروہ اکثر سفید فام برتری کے نظریات کی حمایت کرتے ہیں اور اقلیتوں کو اپنے ملک کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان کی سرگرمیوں نے خاص طور پر برطانوی مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے۔

متاثرہ کمیونٹیز:
ایشیائی اور سیاہ فام برطانوی شہری ان حملوں کا خاص نشانہ بن رہے ہیں۔ کئی افراد نے اپنی روزمرہ کی زندگی میں خوف محسوس کرنا شروع کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے گریز کر رہے ہیں۔ مساجد اور کمیونٹی سنٹرز جیسی جگہوں پر سیکیورٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔برطانوی حکومت نے ان واقعات کی شدید مذمت کی ہے اور وعدہ کیا ہے کہ نسل پرستی اور نفرت پر مبنی جرائم کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ ملک میں ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔مختلف نسلی و مذہبی کمیونٹیز کے رہنما امن و امان کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ پرامن مظاہرے اور آگاہی مہمات چلا رہے ہیں تاکہ معاشرے میں ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ان حملوں کو فوری طور پر روکا نہ گیا تو یہ برطانوی معاشرے میں مزید تقسیم کا باعث بن سکتے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ نسلی مساوات اور سماجی انضمام کے لیے طویل مدتی حکمت عملی وضع کی جائے۔اس صورتحال نے برطانیہ کے بین الاقوامی امیج کو بھی متاثر کیا ہے، جو روایتی طور پر ایک کثیر الثقافتی اور برداشت کے حامل معاشرے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ برطانوی حکومت اور معاشرہ اس چیلنج سے کیسے نمٹتا ہے۔

Leave a reply