مرد بنو تحریر زوہیب خٹک

0
66

۔

بچپن سے سنتے آئے ہیں مرد ہو بہادر بنو مرد روتے نہیں مرد کو درد نہیں ہوتا مرد کو ٹھنڈ نہیں لگتی وغیرہ وغیرہ ۔۔ ان سب باتوں میں بیچارا مرد اپنی انا کی تسکین کا غلام بن جاتا ہے۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی پہلا مشن ہوتا ہے ماں باپ کا سہارا بننا بہنوں کی شادی کوئی چھوٹا موٹا زمین کا ٹکڑا پھر اس پر گھر کی تعمیر الغرض اپنی خواہشات اور ضرورتوں کا گلا گھونٹ کر وہ اپنے فرائض پورے کرتا جاتا ہے پھر کہیں خوش قسمتی سے اچھا جیون ساتھی مل جائے تو اس کی خدمت میں دن رات ایک کر دیتا ہے بوڑھے ماں باپ کا خیال اور اپنی ازدواجی زندگی دونوں کو متوازن رکھ کر چلنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے ۔ ساس بہو کے جھگڑوں میں پِستا ہے تو سمجھ نہیں پاتا کس کے حقوق پورے کرے ایک طرف ماں باپ دوسری طرف جیون ساتھی ۔وہ پھر بھی مرد بن کر سب جھیلتا ہے ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ دونوں کے حقوق میں کوئی کوتاہی نا ہو ۔ زمانے بھر کی ٹھوکریں کھاتا ہے لیکن کبھی شکوہ نہیں کرتا کہ میں تھک گیا ہوں کیونکہ وہ مرد ہے۔ جب بہن کا بھائی ہوتا ہے تو اس کی حفاظت کرتا ہے جب بیوی کا شوہر بنے تو اس پر اپنی جان قربان کرتا ہے ۔بچوں کی پرورش میں جی جان کی بازی لگا دیتا ہے۔ اور اس سب میں وہ کوئی احسان بھی نہیں جِتاتا اس نے اپنے باپ دادا کو بھی یہی کرتے دیکھا اور وہ خود بھی یہی سب اپنا فرض سمجھ کر کرتا ہے ۔ دکھ میں ہو تو رو نہیں سکتا تکلیف میں ہو تو اظہار نہیں کر سکتا کیونکہ اسے یہی پڑھایا سمجھایا گیا ہے تم مرد ہو ۔۔ یہی میرے معاشرے کے بیشتر مردوں کی کہانی ہے جو اپنے اپنے فرائض بخوبی نبھا بھی رہے ہیں ۔اور یہی ہمارے خاندانی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے جس کی وجہ سے ہمارے ہاں آج بھی ماں بہن بیٹی بہو جیسے رشتے عقیدت کی حد تک محبت سے دیکھے جاتے ہیں۔کوئی شک نہیں کہ برے مرد بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں لیکن آٹے میں نمک کے برابر اور اس نمک برابر تعداد پر کہانی کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ میرا جسم میری مرضی ۔ اس نعرے کا سب سے پہلا شکار کون ہوا ؟ جی ہاں "مرد” جسے ظالم جابر سفاک بھیڑیا بنا کر پیش کیا گیا سڑکوں اور چوراہوں میں اس مرد کا تمسخر اڑایا گیا ننگی گالیاں دی گئیں بغاوت کے شادیانے بجائے گئے ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتی نوجوان نسل بیٹیاں چیختی چلاتی پائیں گئیں "باپ سے لیں گے آزادی” یعنی باپ نے آزادی دی تھی تو آج سڑک پر اسی کی پرورش پا کر اسی کے خلاف اعلانِ بغاوت کر دیا گیا ۔ پورے ملک کو دکھایا گیا کہ ہمارا مرد ہماری پیروں کی زنجیر بن چکا ہے ہمیں آزادی چاہئیے ۔ بھلا کون سی آزادی ۔۔؟ وہ جہاں ماں بہن بیٹی بہو کے رشتے بے معنی ہیں ۔۔؟ امریکہ کی کونڈولیزا رائس کا بیان تاریخ کا حصہ ہے کہ "پاکستان کی عورت بہت محفوظ ہے جسے بچپن سے بھائی اور باپ تحفظ دیتے ہیں اور پھر جوانی سے تا مرگ شوہر اس کی حفاظت کرتا ہے۔ پاکستان کی طاقت خاندانی نظام ہے جسے ہم امریکہ میں کھو چکے ہیں”۔ یہ اسی آزاد معاشرے کی سب سے بڑے عہدے پر فائز عورت کا کہنا ہے ۔ لیکن کیا کہئیے کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا ۔ مرد جو خاندانی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے اسے توڑ دیا گیا تو ہم اپنے خاندانی نظام کو بچا نہیں پائیں گے ۔

Twitter @zohaibofficialk

Leave a reply