گلوکارہ، اداکارہ، شاعرہ و موسیقار ملکہ غزل بیگم اختر فیض آبادی

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
0
79
singer

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا
تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

گلوکارہ، اداکارہ، شاعرہ و موسیقار ملکہ غزل بیگم اختر فیض آبادی

ملکہ غزل بیگم اختر فیض آبادی 7 اکتوبر 1914 کو بھدرسا، فیض آباد، ریاست اتر پردیش، ہندوستان میں پیدا ہوئیں وہ ایک ہندوستانی گلوکارہ، فلمی اداکارہ اور موسیقار تھیں بیگم اختر تعلیم میں دلچسپی نہیں تھی وہ صرف 7 سال کی تھیں جب انہوں نے موسیقی سے اپنا تعلق جوڑ دیا انہوں نے موسیقی کی تعلیم لیجنڈ استاد امداد خان سے لینا شروع کی امداد خان سے باقاعدہ تربیت حاصل کرنے کے بعد، انہوں نے پٹیالہ گھرانے سے تعلق رکھنے والے استاد عطا محمد خان سے موسیقی سیکھنا شروع کی انہوں نے خان صاحب کو اپنی بھرپور محنت سے متاثر کیا اور اس طرح انہوں نے ان کی تربیت شروع کر دی۔

وہ ایک حساس آواز رکھنے کے علاوہ ایک پرکشش شخصیت کی مالک بھی تھیں اس لیے وہ فلموں میں اداکاری کے لیے موزوں امیدوار قرار دے دی گئی تھیں اس دوران گلوکاری اداکاروں کے لیے ایک لازمی چیز تھی 1933 میں نل دمیانتی اور کنگ فار اے ڈے جیسی فلموں میں کام کرنے کے لیے ان سے رابطہ کیا گیا انھوں نے 1942 میں مشہور فلم” روٹی” میں کام کیا۔

اداکاری کے علاوہ انھوں نے فلم میں چند غزلیں بھی گائیں انہوں نے اپنے کیریئر میں 400 سے زائد غزلیں اور ٹھمری گائے انہوں نے ایک معروف قانون دان بیریسٹر اشتیاق احمد عباسی سے شادی کی اور شادی کے بعد انہوں لیکن کچھ عرصے کے بعد انہوں نے دوبارہ گانا شروع کر دیا اور اپنی زندگی کے آخر تک گاتی رہیں انہوں نے بہت ساری غزلیں بھی لکھیں اور ان میں سے زیادہ تر راگ پر مبنی تھیں لیکن اپنی شاعری سے زیادہ انہوں نے بڑے شعراہ کے کلام گانے کو ترجیح دی ۔

بیگم اختر ایک حقیقی لیجنڈ گلوکارہ تھیں جنہوں نے مختلف گلوکاروں کو موسیقی کا اپنا علم فراہم کیا وہ لکھنؤ میں مقیم ہو گئیں اور شاگردوں کو قبول کرنے لگیں انہوں نے تربیت کے لیے کبھی بھی داخلے کی رقم یا فیس نہیں لی انہوں نے یہ سب مفت میں کیا ان کا انتقال 30 اکتوبر 1974 کو احمد آباد، گجرات، انڈیا میں ہوا وہ 60 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئیں ان کی گائی چند مشہور غزلوں کے بول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مومن خاں مومن
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
مرزا غالب
میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
شکیل بدایونی
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
میر تقی میر
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے
کیفی اعظمی
کچھ تو دنیا کی عنایات نے دل توڑ دیا
سدرشن فاکر
دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے
بہزاد لکھنوی
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
مرزا غالب
طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
جگر مراد آبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلاش ، ترتیب و ترسیل : آغا نیاز مگسی

Leave a reply