
بجلی چور کون ؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
نگران حکومت نے بجلی چوروں کیخلاف کارروائی اور ڈیفالٹرسے بل وصولی کے لیے آپریشن کا آغاز کیا ہے،اس اپریشن کا عوام کوفائدہ ملے نہ ملے لیکن واپڈا ملازمین کیلئے کرپشن کرنے کاایک نیا دروازہ ضرورکھل گیا ہے جوشہری بجلی چور ی میں ملوث ہی نہیں ہے اگراس شہری کابل کم ہے تواسے کہا جاتا ہے کہ تمہارابل کیوں کم ہے ،لازمی بات ہے کہ تم بجلی چوری کرتے ہو،یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس شہری نے کتنی رقم خرچ کرکے سولرسسٹم لگایا ہے یا اس کے گھرمیں ایک پنکھا یا بلب کے علاوہ کوئی اورالیکٹرونکس اشیاء موجود ہے یا نہیں،اس کے برعکس شہری سے بھاری رشوت کاتقاضاکیا جاتا ہے،اگرشہری ان واپڈا ملازمین کی ڈیمانڈ پوری نہ کرے تو بھاری ڈٹیکشن بل کے ساتھ بجلی چوری کی ایف آئی آراس شہری کامقدربن جاتی ہے ،بجلی چوری کے علاقوں میں جہاں ان واپڈاملازمین کی خدمت کی جاتی ہے وہاں کارروائی سے قبل واپڈااہلکارفون کردیتے ہیں ،اس طرح جو اصل بجلی چورہیں وہ بچ جاتے ہیں ،پکڑاانہیں جارہا ہے جوپہلے ہی مہنگی بجلی کے بھاری بل ادا کررہے ہیں ۔بجلی چورکل بھی محفوظ تھے اور آج بھی اسی طرح سکون سے بجلی چوری کررہے ہیں ،جب تک کئی عرصے سے ایک ہی جگہ تعینات ایل ایس یا لائن مینوں کے دوردرازتبادلے نہیں ہوں گے اس وقت تک متعلقہ سب ڈویژن کے ایس ڈی او زکا بجلی چوری پر قابوپاناممکن ہے۔
ایک خبرکے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کے چیئرمین سیف اللہ ابڑو نے چیئرمین نیپرا وسیم مختار پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیپرا پورے پاکستان کو نچاتا ہے اور آئے روز عوام پر تین، تین چار، چار روپے کے ٹیکے لگاتا ہے۔سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے سوال کیا کہ چیئرمین نیپرا کمیٹی میں آکر سامنا کیوں نہیں کرتے؟کسی فورم پر آتے ہوئے نیپرا کی ٹانگیں کانپتی ہیں،انہوں نے الزام عائد کیا کہ چیئرمین نیپرا جب ایڈیشنل سیکرٹری پاور تھے تب انہوں نے کوٹ ادو پاور پلانٹ کو غیر قانونی توسیع دی۔انہوں نے کہا کہ اس غیر قانونی توسیع کے باعث ملکی خزانے پر 151 ارب روپے کا بوجھ پڑا،چیئرمین قائمہ کمیٹی نے داسو اسلام آباد ٹرانسمیشن لائن کے ٹھیکے کی انکوائری بند کرنے کیلئے ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کی طرف سے سینیٹ پر دباؤ ڈالنے کا بھی الزام لگایا۔
دوسری طرف ایک انگریزی اخبار نے سٹوری شائع کی ہے جس کے مطابق توانائی کی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ سامنے آیاہے پاورڈویژن کے مطابق پاکستان میں بجلی کی کل پیداوار 48000 میگاواٹ ہے جبکہ اس کی ترسیل 26000 میگاواٹ سے زیادہ نہیں ہے لیکن اس نے صارفین کا لوڈ 175247 میگاواٹ ظاہر کیا ہے اور ان سے دھوکہ دہی سے بھاری رقوم وصول کی ہیں۔
اس فراڈ کاانکشاف کراچی سے تعلق رکھنے والے ایسوسی ایٹ انجینئر(الیکٹریکل)انیل ممتاز نے اپنی دستاویزکے ذریعے کیا ہے جواس نے18 ستمبر 2023 کو چیئرمین نیپرا اوراس کے ارکان، وفاقی سیکرٹری توانائی و پاور ڈویژن اسلام آبادکے علاوہ مختلف اداروں کو بھیجیں، جن میں اس نے حکومت کے پاور سیکٹر حکام کے جرم کو بے نقاب کیا ۔
ملک بھر میں بجلی بلوں میں ہوشربا اضافے کے بعد سے عوام کا احتجاج جاری ہے اور مختلف مقامات میں اجتماعی طور پر بجلی بلوں کو جلایا بھی گیا ہے اور مظاہرین کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ واپڈا ملازمین اور دیگر اہم سیاسی شخصیات کو مفت ملنے والی بجلی کا سلسلہ بندکیا جائے کیوں کہ عوام اب اس بوجھ کوبرداشت نہیں کر سکتے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں وزیراعظم، صدر، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز، وفاقی وزرا، چیئرمین نیب ، گورنر اسٹیٹ بینک، سینئر بیوروکریٹ اور سرکاری عہدوں پر فائز اعلی افسران کو ماہانہ بجلی مفت دی جاتی ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے صدر مملکت کی تنخواہ اور دیگر مراعات سے متعلق ایکٹ Presidents Salary, Allowances and Privileges Act 1975 کے مطابق صدر کو لامحدود بجلی یونٹس فراہم کیے جائیں گے جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی صدر ماہانہ 2000 یونٹس مفت استعمال کرسکیں گے۔صدر کے انتقال کے بعد صدر کی زوجہ کو بھی بجلی کے 2000 یونٹس مفت فراہم کیے جائیں گے۔ وزیراعظم پاکستان کو بھی لامحدود مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر ججز کو دوران ملازمت 2000 بجلی یونٹ استعمال کرنے کا اختیار ہے جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان ججز کو 2000 یونٹس بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے۔اس کے علاوہ ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ ججز کو بھی ماہانہ 800 بجلی یونٹ مفت فراہم کیے جاتے ہیں۔چیئرمین نیب کو بھی سپریم کورٹ کے ججز کے مساوی بجلی یونٹس مفت فراہم کیے جاتے ہیں۔ دیگر اداروں کی طرح گورنر اسٹیٹ بینک کو لامحدود بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے اور اس کی رقم اسٹیٹ بینک ادا کرتا ہے۔ سرکاری اداروں کے افسران کو بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے تاہم ادارہ اس بل کی رقم واپڈا کو ادا کر دیتا ہے۔
واپڈا ملازمین اور بجلی پیدا کرنے اور ترسیل کا کام کرنے والوں کو بھاری یونٹس مفت میں فراہم کیے جاتے ہیں،وزارت توانائی کی جانب سے سینیٹ کمیٹی میں پیش کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق ایک لاکھ 89 ہزار واپڈا ملازمین کو ایک سال میں 34 کروڑ بجلی کے یونٹ مفت فراہم کیے گئے، اس طرح انہوں نے 8 ارب روپے کی بجلی مفت استعمال کی۔واپڈاکے 16سکیل والے افسر کو ماہانہ 300 یونٹ، 17سکیل والے کو ماہانہ 450 یونٹ، 18 سکیل والے کو 600 یونٹ، 19سکیل والے کو ماہانہ 880 یونٹ، 20سکیل والے کو 1100 یونٹ جبکہ 21 اور 22سکیل والے واپڈا افسر کو ماہانہ 1300 بجلی یونٹ مفت فراہم کیے جاتے ہیں۔ تمام افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پہلے کی طرح ملنے والے یونٹس مفت فراہم کئے جاتے ہیں۔
ایک اوررپورٹ کے مطابق سرکاری ملازمین کی جانب سے سالانہ 34 کروڑ یونٹ مفت بجلی استعمال کرنے کا انکشاف ہوا ہے، پاور ڈویژن نے گریڈ 17 سے 21 تک کے سرکاری افسران کی مفت بجلی کے خاتمہ کی تجویز کا جھانسہ دے کر بڑی واردات چھپا لی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 15 ہزار ملازمین کی مفت بجلی ختم کرنے سے بڑا فرق نہیں پڑے گا بلکہ ٹیرف میں بڑے فرق کے لیے تمام ملازمین کی مفت بجلی سہولت ختم کرنا ضروری ہے۔دستاویز میں انکشاف ہوا ہے کہ گریڈ 17 سے 21 کے 15 ہزار 971 ملازمین ماہانہ 70 لاکھ یونٹس مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔ اسکے مقابلے میں گریڈ ایک سے 16 تک کے ملازمین 33 کروڑیونٹ ماہانہ مفت بجلی استعمال کررہے ہیں جن کی تعداد 1 لاکھ 73 ہزار200 ہے، یہ سرکاری ملازمین سالانہ 10 ارب کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔دستاویز کے مطابق گریڈ 17 تا 21 کے ملازمین سالانہ 1 ارب 25 کروڑکی بجلی مفت استعمال کر رہے ہیں جبکہ گریڈ 1 سے 16 کے ملازمین ماہانہ 76 کروڑ 43 لاکھ روپے کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔
اس وقت عوام میں بہت زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے،عوام کا کہنا ہے کہ جو حکومتی ادارے بل ادا نہیں کرتے ان کیخلاف بھی کریک ڈاؤن کیا جائے،عوامی حلقوں کی طرف مسلسل سوال اٹھایاجارہا ہے کہ عام شہری کی بجلی چوری توواپڈااوردوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کودکھائی دیتی ہے اُن کے خلاف بھرپورطاقت سے کارروائیاں جاری ہیں لیکن ضلع کچہریوں میں جہاں ڈائریکٹ کنڈے لگے ہوئے ہیں وہ اعلیٰ آفیسران اور قانون نافذکرنے والے اداروں کو کیوں دکھائی نہیں دیتے ،وہاں ایکشن کیوں نہیں لیاجاتا۔
حکومت کے ارباب اختیارسے دردمندانہ اپیل ہے کہ عام صارفین کو ریلیف دیں تاکہ وہ بل ادا کرسکیں ،کنڈا لگانے والوں سے زیادہ سرکاری ملازمین بجلی چوری کرتے ہیںان کے خلاف بھی بھرپورکارروائی عمل میں لائی جائے، اگریکطرفہ غریبوںکے خلاف کریک ڈائون ہوگا تو وہ جرائم کی طرف جائیں گے جس سے انتشار پھیلے گا۔