بیٹیاں تو ٹھنڈی چھاؤں جیسی ہوتی ہیں۔ تحریر فیصل خالد

0
68

ملک کے ایک معروف اینکر نے مینار پاکستان حالیہ واقعہ کے تناظر میں یہ بات کہی ہے ٫٫شکر ہے اللہ نے مجھے بیٹی نہیں دی اور مجھے پاکستانی ہونے پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔؛
موصوف نے یہ بات جس بھی پیرائے میں کی ہے عقل و دانش کا تقاضا یہی ہے کہ منہ کھولنے سے پہلے دماغ کی بتی کو روشن کرلینا چاہئے اور اول فول بکنے سے قبل ہزار بار نہ سہی کم ازکم ایک بار ضرور سوچ لینا چاہئے۔ مخصوص مقاصد کیلئے موقعہ محل کی نزاکت کو دیکھ کر ایسے بیانات داغنے والے اپنی شعلہ بیانی سے بلاشبہ من چاہے نتائج حاصل کر لیتے ہوں گے مگر ان کے ایسے پراپیگنڈے میڈیا کے اس دور میں کس قدر منفی نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ انہیں اس کا اندازہ نہیں۔ جس واقعہ کی پشت پر انہوں نے یہ بات کہی ہے اگر اسے بھی دیکھا جائے تو یہ ایسا معاملہ نہیں کہ آپ سارے معاشرے کو چند بے لگام مردوخواتین کے کرتوتوں کے حاصل کا ذمہ دار ٹھہرا دیں۔ یہ زمانہ جاہلیت کی باتیں ہیں جب بیٹیاں بوجھ ہوا کرتی تھیں۔ الحمد اللہ ہم صاحب اولاد ہیں اور ثم الحمد اللہ کہ ہماری اولاد میں بیٹیاں بھی ہیں۔ جہاں گھروں میں بیٹوں کے دم سے شرارتیں اور ہلہ گلا ہوتا ہے وہیں بیٹیوں کے دم سے جو رونق اور سکون ہوتا ہے انہیں کیا معلوم جن کو اللہ تعالیٰ نے اس رحمت کی نعمتیں عطاء نہیں کیں۔ ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کے ساتھ شفقت و محبت اور احترام کی خاندانی روایات ہیں کہ انہیں بیاہ کر پیا گھر سدھار جانا ہوجاتا ہے۔اسلام کا سورج طلوع ہونے سے پہلے عرب اور دیگر معاشروں میں بیٹی کی پیدائش کو منحوس اور شرم کا باعث سمجھا جاتا تھا یہاں تک کہ پیدا ہوتے ہی بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا، مگر اسلام نے بیٹی کی پیدائش کو باعث رحمت قرار دے کر معاشرے کو متوازن اور خوبصورت بنا دیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں کی بہترین پرورش کا معاملہ کرنے والے والدین/ سرپرستوں کیلئے جہنم سے دوری کی بشارت دے دی۔ آپ نے فرمایا ’’جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بلوغت کو پہنچ گئیں تو قیامت کے روز میں اور وہ اس طرح ہوں گے۔ آپؐ نے اپنی انگشت شہادت کو ساتھ والی انگلی سے ملا کر دکھایا۔ بیٹی کا معاملہ ہی دیکھ لیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فاطمۃ الزہرۃؓ سے اتنی محبت تھی کہ انھیں اپنے جگر کا ٹکڑا کہا کرتے، جب حضرت فاطمہؓ آپؐ سے ملنے آتیں تو آپؐ ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے، کبھی ان کے لیے اپنی چادر بچھاتے۔بیٹیوں کو وراثت کا حق دیا۔ بدقسمتی سے آج پھر معاشرہ ان بیٹیوں کو بوجھ بنانے پر تلا ہوا ہے۔ اسلام نے بیٹیوں کے معاملہ میں جو احترام ، محبت اور شفقت کے اصول وضع کردیئے تھے انہیں خرابی کی طرف لیجایا جارہا ہے۔ اللہ کی اس رحمت کو زحمت بنایا جارہا ہے۔ زمانہ جاہلیت کی طرح بیٹیوں والوں کو طعنے دیئے جاتے ہیں۔ انہیں کمزور سمجھا جانے لگتا ہے۔ آج معاشرے کو بیٹی کے تصور سے خوفزدہ کیا جارہا ہے۔ کمرشلائزیشن کے دور میں بیٹیوں کو مارکیٹنگ جنس بنادیا گیا ہے۔ میڈیا کی مدد سے آج کی بیٹی کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ ڈراموں،فلموں کی کہانیوں میں معاشرے کی تصویر دکھانے کے نام معاشرے کو تباہی و بربادی کے ایجنڈے پر استوار کیا جارہا ہے۔ باپ اور بیٹی تک کے مقدس رشتوں کو مشکوک بنایا جارہا ہے۔ کہیں بیٹی کو مثبت معاشرتی اقدار سے باغی بننے کی تربیت کی جارہی ہے تو کہیں باپ کو بیٹی کا روپ بوجھ بتایا جارہا ہے۔ لوگوں کی بیٹیوں کو روپے پیسے اور مادیت کے لالچ میں گمراہ کیا جارہا ہے ۔ رستہ سے بھٹک جانے والی بیٹیوں کی مدد سے دوسروں کی بیٹیاں خراب کی جارہی ہیں۔ بے لگام میڈیائی پراپیگنڈہ جس انداز سے ہماری بیٹیوں کو مشرقی روایات، ثقافت و مذہب سے دور کرنے میں مصروف ہے اس کی مثالیں سوشل میڈیا کے لچر پن ناچ گانے ٹک ٹاک کی بے حیائی میں نمایاں ہیں۔ والدین کا بیٹیوں بالخصوص بیٹوں کی تربیت سے ہاتھ کھینچ لینا بیٹیاں سب کی سانجھی جیسی خوبصورت سوچ والے معاشرے کو غلط سمت پر لیجارہا ہے۔ مینار پاکستان واقعہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ معروف اینکر پرسن کو بتایا جائے کہ یہ ٹک ٹاک اور دیگر ایسے پلیٹ فارمز پر رحجان پانے والی سرگرمیاں یہ ہمارے معاشرے کی عکاس ہر گز نہیں ہیں۔ اگر آپ ایسی سرگرمیوں کے نتیجہ میں ہونے والے واقعات کے بعد بھی ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی نہیں کرسکتے، دوسروں کی بیٹیوں کو محض اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہو تو سبھی معاشرے کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے مزید یہ کہ بیٹیوں اور پاکستان سے ہی پناہ نہ مانگی جائے کہ بیٹیاں اللہ کی بہت بڑی رحمت ہیں یہ تو ٹھنڈی چھاؤں جیسی ہیں بس ان کی قدر کرنے اور اپنی اپنی اصلاح کی ضرورت باقی ہے-

Twitter handle
@_FaysalKhalid

Leave a reply