بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتی.تحریر :ماشا نور

ہمارے بہت سے گھروں میں بیٹیوں کو یہ بات بتائی جاتی ہے روٹی بنانا سیکھ لو ورنا سسرال جاکر مار کھاؤ گی شروع سے ہی بیٹیوں کو بوجھ سمجھ لیا جاتا ہے انکو بات بات پر یہ سنے کو ملتا "پرائے گھر کی امانت ہو اپنے گھر جاکر کرنا جو کرنا ہے” جبکہ سسرال میں بہو بن کر اس سے زیادہ مشکل جمعلے سنے پڑتے "ماں نے کچھ سکھا کر نہیں بھیجا” کیوں ہم بیٹیوں سے یہ امید لگاتے ہیں کے وہ ہر کام چھوٹی سی عمر میں باخوبی سرانجام دیں ہم انکی تعلیم پر بات کیوں نہیں کرتے بیٹی کو پڑھانے اس کو بیٹے کے برابر کھڑا کیوں نہیں کرتے اس لیے کے وہ دوسرے گھر کی امانت ہے وہ ہمیں کماکر نہیں کھلائے گی بڑھاپے کا سہارا نہیں بنے گی تو معذرت کے ساتھ ان ماں باپ سے جن کی یہ سوچ ہے کے بیٹی بوجھ ہےاگر بیٹے بھی تو لاوارث چھوڑ دیتے ہیں ایسے ماں باپ کو پوچھتے نہیں جیسا آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے ہم روانہ ہی ایسے کتنے کیسز دیکھتے ہیں جس میں جوان جہاں اولاد ماں باپ کو مار پیٹ رہے ہوتے ہیں گالیاں دیتے ہیں "جن ماں باپ کو اف تک کرنے سے منہ فرمایا گیا” وہی مان باپ کو اولاد گندی گندی گالیاں دیتی ہے کیوں ؟کیوں کے ہم نے اولاد کی تربیت میں کمی رکھی ہم نے بیٹے کو راجا مہاراجا کی طرح ناز نخرے اٹھائے لیکن بیٹی کو بوجھ سمجھ کر گھر کی چار دیواری میں رکھا اسکی تعلیم روکی حالانکہ بیٹی وہ ہے جو والدین کی تکلیف پر ان سے زیادہ آنسو بہاتی ہے ہر ممکن کوشش کرتی کے کیا کروں ایسا کے ماں کی آنکھ میں آنسو ناائے ماں باپ کی عزت کا بوجھ اپنے نازک کندھوں پر رکھے وہ ہنستے مسکراتے سب سہہ جاتی ہے
جن گھروں میں بیٹیاں ہوتی ہیں وہ گھر جنت ہے بیٹی کی ہنسی سے سارا گھر روشن ہوجاتا ہے اس کے نازک ہاتھوں میں کانج کی چوڑیاں دیکھ کر دل خوش ہوجاتا ہے اسکے معصوم سے چہرے کو دیکھ کر کام سے آئے باپ کی سارا دن کی تھکن اتر جاتی باپ کا غرور ہے بیٹی ماں کا مان ہے بیٹی
بیٹی ماں باپ کے دکھ میں ہمسفر ہے مجھے یاد ہے آنکھوں دیکھا حال کے اک ماں ہسپتال میں بستر پر پڑی تھی اور بیٹی وہی نیچے اپنی چادر پھیلائے اللہ سے رو رو کر دعائیں کررہی تھی دل چیر دیا تھا اس لمحے نے کوئی انتہائی سخت دل ہوگا جس نے اس لمحے کو دیکھ کر آمین نا کہا ہوگا پھر بیٹی بوجھ کیسے ہوسکتی ہے بیٹی تو رحمت ہے
اگلا مرحلہ سسرال میں اسکے لیے اور کھٹن ہوتا ہے سب کے دل جیتنا شوہر ساس سسر نند دیور سمیت پورے گھر کو ساتھ لے کر چلنا سب کی ضرورتوں کا خیال رکھنا چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنا گھر کی یاد آئے تو کچن میں جاکر آنسو بہا لینا یہ سب ایک بیٹی کرتی ہے قسمت اچھی ہو تو سسرال والے اچھے مل جاتے جو بہو نہیں بیٹی کی طرح رکھتے گھر کے فیصلوں میں بہو کی رائے لی جاتی اسکے جائز حقوق دیے جاتے ایسی لڑکی میں اعتماد پیدا ہوتا ہے وہ اپنی اولاد کی تربیت اچھی کرتی ہے جہاں ذہنی سکون ہو وہاں عورت تنگی بھی ہنس کر برداشت کرلیتی ہے دوسری طرف پیسے کی بارش ہو مگر رشتوں میں اعتبار بھروسہ ایک دوسرے کی خوشی کی فکر نا ہو وہاں دم گھٹتا ہے ہم اپنی بیٹوں کو اگر یہ سیکھانے کے بجائے کے تم نے آگے جاکر سسرال سمنبھالنا ہے انکو تعلیم دلوائیں ان کو زندگی میں کیا کرنا ہے یہ پوچھیں تو بہت سی بیٹیاں سسرال جاکر ظلم سے بچ سکتی ہیں اس کے ساتھ ہی والدین کو چائیے اپنی اولاد کو مذہبی تعلیم ضرور دیں تاکہ انکو اچھے سے معلوم ہو کے ہمارے مذہب میں عورت مرد کے جائز حقوق کیا ہے اور حدود کیا ہے وہ خود اپنی زندگی میں بہتر فیصلے لیں اللہ پاک ہر بیٹی کا نصیب اچھا کرے اسکو ایسی ہمت دے کے وہ معاشرے کے لیے مثال بنے اور اپنی نسل کو بہترین انسان بنائے
آمین