بھارت میں جڑواں پہاڑوں پر واقع غاروں میں پہلی صدی قبل مسیح کی درسگاہیں دریافت

0
49

بھارتی ریاست اڈیشہ کے جڑواں پہاڑوں ادے گیری اور کھنڈا گیری میں واقع غاروں میں درسگاہیں دریافت ہوئیں جن کے بارے ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ پہلی صدی قبل مسیح کی درس گاہیں تھیں-

باغی ٹی وی : برطانوی خبر رساں ادارے ” انڈپینڈنٹ اردو ” کو ادے گیری اور کھنڈا گیری میں ان آثار قدیمہ کی تاریخی معلومات سیاحوں تک پہنچانے والے ایک مقامی گائیڈ سبھاش چندر پردھان نے بتایا کہ ان کی تعمیر جنگ کلنگا کے بعد ہوئی۔ اس وقت یہاں جین مذہب کے پیروکار موریا سلطنت کے راجہ اشوک سے چھپنے کے لیے آباد ہوئے۔

’بلیک بیوٹی‘ نامی شہابی پتھرمیں قدیم ترین مریخی معدنیات موجود

جنگ کلنگا موریا سلطنت اور کلنگا سلطنت کے درمیان پہلی صدی قبل مسیح کے زمانے میں لڑی گئی تھی، جس کے بعد راجہ کلنگا نے جین مذہب اور اشوک نے بدھ مت اختیار کر لیا تھا جنگ سے پہلے دونوں کا مذہب ایک ہی تھا ان غاروں کا بنیادی مقصد جنگ کے دوران چھپنا تھا مگر بعد میں انہیں درس و تدریس کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔

یہ دو پہاڑ ہیں ایک ادے گیری اور ایک کھنڈا گیری یہ زلزلے سے پہلے ایک تھے ادے کا مطلب عروج اور گری کا مطلب پہاڑی۔ اس لیے اسے ادے گیری کہتے ہیں کھنڈا کا مطلب میٹھا اس لیے اسے سویٹ ہل بھی کہتے ہیں۔

یہ ایک یک سنگی ڈھانچہ ہے یہ بھارت کا پہلا مونو لیتھک سٹرکچر ہے جبکہ دوسرا الورا اجنتا ہےاڈیشہ کے ان غاروں میں کئی نقوش ہیں جین مذہب کے مذہبی پیشوا اور مبلغ کے نقوش بھی یہاں ہیں ہر پیشوا کی نشانی بھی ہے رشوناتھ سے لے کر مہاویر 24 پیشواؤں کی مورتیاں بھی ہیں جین مذہب کے ایک پیشوا رشو کی علامت آدی ناتھ یعنی گائے کی سواری اور پیشوا مہاویر کی علامت شیر ہے، جو یہاں غاروں میں بنی ہوئی ہے یہاں باقی جین مبلغوں کی علامتیں بھی ہیں، جو یہاں کے غاروں میں موجود ہیں یہ آثار بتاتے ہیں کہ کلنگا سلطنت کتنی ترقی یافتہ تھی۔

قازقستان کے ایک غار سے 48 ہزار سال قبل رہنے والے انسان کی باقیات دریافت

سبھاش کے مطابق یہاں سب سے پہلا غار رانی غار ہے یہ 10 منزلہ تھا جو اب دو منزلہ بچا ہے آٹھ منزلیں زلزلے میں گر گئیں اس میں ہاتھی غار بھی ہے یہاں بھارت کے سب سے طاقت ور راجہ کلنگا کی نشانی ہے۔ پالی زبان۔ برہمنی سکرپٹ۔ کلنگا کی شہری اور فوجی ترقی کی نشانیاں ہیں۔ شانتی مایتری اور پریتی لکھا ہے۔ وہاں سواستک بھی ہے جو رحم دلی معافی اور امن سے عبارت ہے ان غاروں میں سیوریج سسٹم بھی ہے۔ اس کا مطلب ہےکہ یہاں پانی کی ترسیل تھی ٹھنڈے پانی کا بندوبست تھاپانی کے ذریعے پیغام رسانی اورمواصلات کا بندوبست بھی تھا۔ ان کے پاس ٹیکنالوجی تھی ہمارے پاس کچھ نہیں۔

جین کی مذہبی روایتوں میں ادے گیری اور کھنڈا گیری کی باقیات کی بہت اہمیت ہے۔ یہ دونوں مراکز اب حکومت ہند کے محکمہ آثار قدیمہ کے ماتحت آتے ہیں۔

آثار قدیمہ کی ویب سائٹ کے مطابق ان غاروں کو بنانے کی وجہ جینی بھکشوؤں کو مراقبہ گاہیں فراہم کرنا تھا جسے بعد میں جین مذہب کی تعلیم کے لیے بطور درس گاہ استعمال کیا گیا محکمے کے نوٹس میں لکھا ہے کہ رتنا گیری اور کھنڈا گیری میں پہلے 117 غاریں تھیں جو زلزلے اور زمانے کی دست و برد کے بعد صرف 33 بچی ہیں۔

انٹرنیٹ پر جاری تفصیلات کے مطابق جنگِ کلنگ اشوک اعظم کی سلطنت موریہ کی فوج اور سلطنت کلنگ کی فوج کے درمیان ہوئی تھی، موریا سلطنت پر اس وقت اشوکا کی حکومت تھی جو چندر گپت موریا کا پوتا تھا کالنگا ایک جاگیردارانہ ریاست تھی جو مشرقی ساحل پرواقع تھی۔یہ جنگ دنیا کی سب سے بڑی خون خرابے والی جنگوں میں سے ایک ہے۔

1 کروڑ 80 لاکھ سال قبل زمین پر پائے جانیوالے دیو ہیکل مگرمچھوں کی نئی اقسام دریافت

یہ جنگ وہ واحد بڑی جنگ تھی جو اشوکا نے تخت سنبھالنے کے بعد لڑی اس جنگ میں اڑھائی لاکھ افراد مارے گئے۔ دراصل کالنگا کی جنگ امن کی بحالی اور اقتدار کے لیے تھی۔ کالنگا ایک خوشحال علاقہ تھا جس میں امن پسند اورہنرمند لوگ رہتے تھے۔ کالنگا کے شمالی علاقے کو اتکلا کہا جاتا تھا۔کالنگا میں کئی بندرگاہیں بنائی گئیں اور اس کی بحریہ بڑے زبردست افراد پر مشتمل تھی۔

ہندوستان کی تاریخ میں کوئی جنگ اتنی اہمیت کی حامل قرار نہیں دی جاتی جتنی کالنگا کی جنگ ہے۔ ایک تو اس جنگ کی شدت بہت زیادہ تھی اور پھراس کے نتائج بہت حیران کن تھے۔ تاریخ عالم کی بڑی جنگوں میں ایک جنگ کالنگا کی بھی ہے۔ کالنگا کی فوجی طاقت کی ایک اہم وجہ ہاتھیوں کی طاقت تھی۔ چندرگپت موریا کے زمانے کے یونانی سفیر نے بالواسطہ طور پر کالنگا کی فوجی طاقت کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اس کے مطابق موریا سلطنت کے پہلے شہنشاہ کے زمانے میں کالنگا کے بادشاہ نے اپنے لیے 60,000 سپاہی باڈی گارڈ کے طور پر رکھے تھے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس 1 ہزار گھڑ سوار اور 700ہاتھی تھے۔ اگر بادشاہ کو اپنے اور اپنے محل کے تحفظ کیلئے اتنی بڑی فوج کی ضرورت تھی تو اس سے اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ اپنی ریاست کے تحفظ کیلئے اس کے پاس کتنی بڑی اور طاقتور فوج ہوگی۔

دراصل تقریباً 150 قبل مسیح میں شہنشاہ کھار بیل نے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ باختر کے ڈیمیٹریس اول کا ہم عصر تھا، موجودہ بھارت کا ایک بڑا حصہ فتح کر لیا کھار بیل ایک جین حکمران تھا۔ اس نے ادے گیری پہاڑی کے اوپر مٹھ (خانقاہوں کے مساوی) تعمیر کی۔ تاریخی دستاویزات میں درج ہے کہ کورکھشیتر کی جنگ سے سالہا سال قبل کلنگا ایک با اختیار ریاست تھی اس وقت کالنگا کا کوئی بادشاہ نہیں تھا۔

عراق میں شدید خشک سالی کے باعث دریائے دجلہ سے 3,400 سال پرانا شہر نمودار

اس وقت سلطنت کلنگا ہندوستان کی عظیم قوتوں میں شمار ہوتی تھی۔ میگھا واہانا، جسے چیدی خاندان کہا جاتا ہے، کے راجا کھار بیل کے عہد میں تقریباً پہلی یا دوسری صدی قبل مسیح یہ غار بنائے گئے تھے یہ وہ عہد تھا جب ریاست کلنگا کو سمندری تجارت کی وجہ سے مقامی رسم و رواج میں ناپاک مانا جاتا تھا۔ مورخین کا ماننا ہے کہ خود مختار کلنگا کی بحری تجارت کی وجہ سے موریہ سلطنت کو سیاسی اور تجارتی خطرات لاحق ہوئے ان خطرات کے پیش نظر راجہ اشوک نے جنگ عظیم چھیڑی تھی اور قتل و غارت کی ایک داستان رقم کردی، جس سے شرمندہ ہو کر اشوک نے ہندو دھرم چھوڑ کر بدھ مذہب اختیار کرلیا۔

حالانکہ وہ کلنگ پر قبضہ نہیں کر پائے بدھ مت اختیار کرنے کے بعد اشوکا کو یہ یقین ہو گیا کہ بدھ مت تمام انسانوں‘ جانوروں اور پودوں کیلئے سودمند ہے۔ اس نے دوسری ریاستوں میں بھی بدھ ازم کو فروغ دیا یہ بات اپنی جگہ بہت حیران کن ہے کہ وہ اشوکا جو ایک سفاک شہنشاہ تھا اور جسے خون کا پیاسا کہا جاتا تھا‘ کالنگا کی فتح کے بعد اسکی کایا کلپ ہو گئی اور وہ پچھتانے لگا کہ اس جنگ میں اتنا انسانی خون کیوں بہا؟ تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ ایک فاتح بادشاہ فتح کے بعد اتنا پرملال ہوا کہ اس نے اپنا مذہب ہی تبدیل کر لیا-

سعودی عرب میں سمندری چھپکلی کی 80 ملین سال پرانی باقیات دریافت

پہلی صدی قبل مسیح میں چیدی شاہی خاندان نے کلنگا پر حکمرانی شروع کی۔ اس خاندان کے تیسرے حکمراں کھار بیل تھے جن کا شمار اس وقت کے عظیم ترین حکمرانوں میں کیا جاتا ہےکھار بیل کے عہد میں یہ غار بنے تھے۔ غاروں کے فن تعمیر سے چیدی عہد کی طرز تعمیر اور مہارت کا پتہ چلتا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شیشوپال گڑھ (موجودہ ریاست کا ایک علاقہ) کی کھدائی جو مسٹر بی بی لال کی نگرانی میں 1984 میں ہوئی۔ اس میں یہاں سے چیدی خاندان کے عہد کے ایسے نایاب جنگی ہتھیار ملے ہیں جسے صرف رومی فوج استعمال کرتی تھی۔

مؤرخین کہتے ہیں کہ اس امر سے چیدی حکمرانوں کے بین الاقوامی تعلقات کا پتہ چلتا ہے۔ کھار بیل نے بھی اپنے پیش رؤوں کے مطابق سلطنت کو مضبوط کرنےکی کوشش کی کھاربیل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پیدائشی جینی تھا اور اشوک کی طرح اس نے کوئی دوسرا مذہب اختیار نہیں کیا۔ جین مذہب کی اشاعت کے لیے کھاربیل نے مندروں کی تعمیر کے علاوہ پہاڑ وں کو کٹوا کرغار بنوائے۔

یہ دونوں پہاڑ، جو کہ پہلے ایک تھے، ہندوستان کی مشرقی ساحل پر واقع اڈیشہ کی راجدھانی بھوبنیشور سے تقریباً سات کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہیں اور سال بھرسیاحوں کی نگاہِ ستائش و حیرت کا مرکز بنےرہتے ہیں ان غاروں کو پہلی مرتبہ 19ویں صدی عیسوی میں برطانوی افسر انڈریو سٹرلنگ نے دریافت کیا تھا۔

ڈھائی ہزار سال قبل ستاروں کی سیدھ میں بنایا گیا مقدس تالاب

Leave a reply