بھارتی آبی جارحیت اور پاکستان کا دو ٹوک جواب ،تحریر:شاہد نسیم چوہدری

3 ہفتے قبل
تحریر کَردَہ
shahid naseem

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا عندیہ دینا محض ایک سیاسی چال نہیں بلکہ یہ جنوبی ایشیا کے امن پر کھلا وار اور آبی دہشتگردی کے مترادف ہے۔ یہ اقدام بھارت کے اُس توسیع پسندانہ عزائم کی ایک نئی قسط ہے جس کی ابتدا مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری کے خاتمے، لائن آف کنٹرول پر مسلسل جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور پاکستان دشمنی پر مبنی بیانات سے ہو چکی ہے۔ اب پانی جیسی قدرتی نعمت کو ہتھیار بنا کر بھارت نے ثابت کر دیا ہے کہ نہ اسے بین الاقوامی قوانین کی پروا ہے اور نہ ہی انسانیت کا لحاظ۔
1960ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ورلڈ بینک کی معاونت سے سندھ طاس معاہدہ طے پایا، جس کے تحت تین مشرقی دریا (ستلج، بیاس، راوی) بھارت کو جبکہ تین مغربی دریا (جہلم، چناب، سندھ) پاکستان کو دیے گئے۔ اس معاہدے نے پاکستان کی زراعت اور معیشت کو وہ پانی فراہم کیا جس پر ہماری لاکھوں ایکڑ زمین انحصار کرتی ہے۔ بھارت کو اس معاہدے کی بدولت مشرقی دریا مکمل طور پر ملے، جب کہ پاکستان نے اعتماد، مروت اور عالمی ثالثی پر بھروسا کرتے ہوئے اس تاریخی دستاویز پر دستخط کیے۔بھارت کا اس معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان، دراصل اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔ یہ بات یاد رکھی جانی چاہیے کہ سندھ طاس معاہدہ کسی عام دو طرفہ مفاہمت کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کی حیثیت اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور عالمی ثالثی قوانین کے تحت تسلیم شدہ ہے۔ اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا مطلب ہے کہ بھارت نہ صرف پاکستان کے خلاف آبی جنگ کا آغاز کر رہا ہے بلکہ وہ جنوبی ایشیا میں تباہ کن تنازع کی بنیاد رکھ رہا ہے۔
پاکستان کسی صورت خاموش نہیں بیٹھے گا۔ ہم نے ہمیشہ سفارتکاری کو ترجیح دی، لیکن بھارت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان نے اگر جواب دینے کا فیصلہ کر لیا، تو وہ محض الفاظ یا احتجاج تک محدود نہ ہوگا۔ اگر ہماری زمینیں بنجر ہوئیں، تو بھارت کی فضائیں بھی محفوظ نہ رہیں گی۔ اگر ہمارے کسان پیاسے مرے، تو بھارتی معیشت بھی پانی کے ایک قطرے کو ترسے گی۔ جنگ ہم نہیں چاہتے، لیکن اگر دشمن ہم پر مسلط کرے گا تو ہم تاریخ کو یہ بھی دکھا دیں گے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے کیسے دیا جاتا ہے۔بدقسمتی سے بین الاقوامی طاقتیں، جو ہر چھوٹے مسئلے پر بیان بازی کرتی ہیں، آج بھارت کے اس سنگین اقدام پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔ اقوامِ متحدہ، ورلڈ بینک اور دیگر اداروں کو اب جاگنا ہو گا، کیونکہ اگر بھارت کو کھلی چھوٹ دی گئی تو دنیا کے کئی خطوں میں آبی وسائل کی جنگیں چھڑ سکتی ہیں۔
بھارت اگر یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان صرف زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھے گا تو یہ اُس کی سب سے بڑی بھول ہے۔ ہم امن چاہتے ہیں لیکن کمزوری نہیں۔ اگر بھارت نے کسی بھی مغربی دریا پر پانی روکا، تو یہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ سمجھا جائے گا۔ ہم نہ صرف بھرپور سفارتی، قانونی اور عسکری جواب دیں گے بلکہ عالمی سطح پر بھارت کو آبی دہشتگرد اور معاہدہ شکن ملک کے طور پر بے نقاب کریں گے۔سندھ طاس معاہدہ صرف پانی کا نہیں، بقاء کا مسئلہ ہے۔ بھارت اگر سمجھتا ہے کہ وہ پانی روک کر پاکستان کو زیر کر لے گا تو اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ ہم نے ایٹمی دھماکے بھی اپنے دفاع میں کیے تھے، پانی کے ایک قطرے کے لیے بھی ہم وہی جذبہ رکھیں گے۔ دشمن کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے کہ پاکستانی قوم متحد ہو جائے تو نہ صرف دریاؤں کا رخ موڑ سکتی ہے بلکہ تاریخ کا دھارا بھی بدل سکتی ہے۔
اب جب کہ پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی کونسل نے بھی بھارت کو سخت جواب دینے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے، یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ اب صرف الفاظ سے کام نہیں چلے گا۔ قومی سلامتی کے ادارے، عسکری قیادت اور سیاسی قیادت سب ایک صفحے پر ہیں اور یہ پیغام بھارت سمیت پوری دنیا کو پہنچا دیا گیا ہے کہ پاکستان اپنی آبی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ دشمن کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ہم امن پسند ضرور ہیں، لیکن اگر جنگ مسلط کی گئی تو پھر ہر میدان، ہر محاذ اور ہر دریا پر پاکستان کی جیت ہو گی۔ سندھ طاس معاہدہ ہماری زندگی کی ضمانت ہے، اور اس کی حفاظت کے لیے ہم ہر حد تک جائیں گے — چاہے وہ سفارتی محاذ ہو یا سرحدی مورچے۔

Latest from سیاست