بنا کام کے پیسے!!! — ڈاکٹر حفیظ الحسن

0
32

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں ایک ایسی سوسائٹی کا جہاں آپ کوئی کام نہ کریں اور آپکو ہر ماہ ایک کثیر رقم حکومت کی طرف سے ملے؟ مگر ایسا کیسے؟ اور کیوں؟

اٹھارویں صدی میں صنعتی انقلاب اور انجن کی ایجاد کے بعد بہت سے ایسے کام جو ماضی کا انسان کرتا تھا اب مشینوں پر ہونے لگے مگر یہ کافی نہیں تھا۔ مشینیں ذہین نہیں تھیں۔ وہ چند مخصوص کام کر سکتی تھیں۔ باقی کا کام انسان کو کرنا پڑتا۔ پھر آہستہ آہستہ سائنسی ترقی ہوئی، ٹیکنالوجی بہتر ہوئی، کمیونیکیشن کے روابط بڑھے اور دنیا سمٹ کر رہ گئی۔ انسانی معاشروں میں خیالات کے تبادلے بہتر ہوئے، علم میں اضافہ ہوا، سوچ وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی۔

بیسویں صدی الیکٹرانکس کا دور تھا۔ کمپیوٹر ایجاد ہوا۔ وہ کام جو انسان کرتے تھے، اب کمپیوٹر کرنے لگے۔ آپکو حساب کرنا ہو کمپیوٹر حاضر ہے، پینٹنگ بنانی ہو، کمپیوٹر حاضر ہے، کاغذ قلم کا دور گیا، اب سافٹ وئیرز کی مدد سے ٹائپ کیا جانے لگا۔ گھنٹوں کا کام منٹوں میں ہونے لگا۔ پھر انٹرنیٹ کا دور آیا، کمپوٹرز آپس میں باتیں کرنے لگے، کمپیوٹر میں لگے پراسسز کی سپیڈ بڑھنے لگے، پراسسرز چھوٹے مگر مزید طاقتور ہوتے گئے کمپیوٹر میزوں سے نکل کر آپکے ہاتھ میں سمارٹ فون میں صورت آ گئے۔ ڈیٹا کا تبادلہ، روزمرہ کی زندگی کے حالات انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا کی صورت آنے لگا۔ یہ سب کس قدر جلدی ہوا، ٹیکنالوجی کی چھلانگ کس قدر تیز تھی کہ پتہ بھی نہ چلا۔
پیسے کمانے کے نئے سے نئے ذرائع آن لائن بزنس کی صورت ہونے لگے ۔ اس سب کے ساتھ ساتھ روبوٹس اور پیچیدہ الگورتھمز اور پروگرامز بننے لگے جو ڈیٹا کے اس سمندر کو اپنے اندر سمو سکتے۔ ترقی کا پیہہ انسان کو اس نہج پر لے آیا کہ روبوٹس پیچیدہ سے پیچیدہ انسانی مسائل مصنوعی ذہانت سے حل کرنے لگے۔ اور آج یہ حال ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس آپکے ہر طرف ہے۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ اُٹھا کر دیکھیں آپکو کہیں نہ کہیں یہ خودکار مصنوعی ذہانت پسِ پردہ اور منظرِ عام دونوں میں نظر آئے گی۔

آج روبوٹس ذہین ہیں۔ یہ ہر وہ کام کر سکتے ہیں جن میں ایک تسلسل ، ایک ترتیب ہو۔ مثال کے طور پر ایک مزدور کس ترتیب سے عمارت بنانے کے لیے اینٹیں لگاتا ہے، یہ سب ایک تھری ڈی پرنٹر روبوٹ بھی کر سکتا ہے۔ ایک کسان کیسے ایک خاص ترتیب میں بیچ بوتا ہے، یہ ایک روبوٹ بھی کر سکتا ہے۔ روبٹس انسانوں کو دیکھ کر خود سے سیکھ رہے ہیں، مشین لرننگ کر رہے ہیں۔ ماحول کا ادراک کر کے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو متوقع نتائج تک لے جائیں۔

خودکار گاڑیاں بن رہی ہیں جو انسانی ڈرائیوروں سے وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ محفوظ طریقے سے گاڑی چلاتی ہیں۔ کینسر کی تشخیص ایک ڈاکٹر سے بہتر طور پر ایک آرٹفیشل انٹیلیجنس کا پروگرام کر سکتا ہے۔ حال ہی میں گوگل کے ایک مصنوعی ذہانت کے پروگرام نے انسانی ڈاکٹروں سے بہتر پھیپھڑوں کے کینسر کی تشخیص کی۔ روبوٹ معاشرتی رویوں کو نقل کر رہے ہیں انسانوں کی طرح چہرے کے تاثرات دکھانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر مصنوعی ذہانت کے پاس ان گنٹ ڈیٹا اور اسے پراسس کرنے کی صلاحیت انسانوں سے بڑھ کر ہے۔ شطرنج جیسے مشکل کھیل کو سمارٹ فون پر محض عام سے ایپ زیادہ بہتر طور پر کھیل سکتی ہے۔

ایسے میں وہ جو مستقبل کو دیکھ رہے ہیں یہ جانتے ہیں کہ جلد مصنوعی ذہانت کم و بیش تمام انسانی پیشوں کو اور نوکریوں کو ختم کر کے خود اُنکی جگہ لے لی گی۔ روبوٹس اور مصنوعی ذہانت کھیتوں سے لیکر فیکٹریوں تک ہر جگہ کام کریں گے۔ تو پھر انسان کیا کریں گے؟ وہ کونسی نوکریاں کریں گے؟ جب نوکریاں ہونگی ہی نہیں

ایسے معاشرے میں انسان ناکارہ ہو جائیں گے۔ تمام پیشوں کے کام مصنوعی ذہانت کے روبوٹس کریں گے۔ اس معاشرے کو پوسٹ ورک سوسائٹی کہتے ہیں جہاں انسانوں کے لیے پیسہ کمانے کے لیے کام ختم ہو جائے گا۔ مگر انسان صارف تو بہرحال رہے گا۔ ایسے میں روبوٹس کی بنائی مصنوعات کو استعمال کرنے کے لیے انسانوں کے پاس پیسے کہاں سے آئیں گے؟ اسکا جواب ہے یونیورسل بیسک اِنکم یعنی بنیادی تنخواہ جو حکومتیں ہر ایک شہری کو دیں گی تاکہ وہ اسے استعمال کر کے زندہ بھی رہیں اور معیشت کا پہیہ بھی چلائیں۔

اس حوالے سے کئی مغربی ممالک میں کام ہو رہا ہے مثال کے طور پر فن لینڈ اور نیدرلینڈ کے کچھ شہروں میں ابتدائی تجربات کیے گئے ہیں جہاں کچھ شہریوں کو ہر ماہ بنا کسی کام کے ہیسے دیے گئے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ اس سے معیشت اور معاشرے پر کیا مثبت یا منفی اثرات پڑتے ہیں۔ اس حوالے سے ابھی مزید تحقیق درکار ہے مگر ابتدائی نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ دنیا بھر کی بڑی کاروباری شخصیات جن میں بِل گیٹس، ایلان مسک اور مارک زکربرگ شامل ہیں، پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ دنیا آہستہ آہستہ اس ماڈل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مستقبل کی نسلیں گھر بیٹھے بغیر کچھ کیے پیسے کمائیں گی اسے کچھ لوگ لگثری کامونزم کا نام بھی دیتے ہیں۔ مگر اسکے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ گھر بیٹھے معاشروں کو مصروف کیسے رکھا جائے گا؟ شاید ورچوئل رئیلٹی اور ویڈیو گیمز کے ذریعے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

Leave a reply