بھارت میں انسانیت کا قتل عام
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
ایک خبر کے مطابق بھارتی نیوی نے روہنگیا مہاجرین کو بحیرہ انڈمان میں پھینک دیا ہے، جس پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے نوٹس لے کر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ کمیشن نے اسے "غیر انسانی”، "ناقابلِ قبول” اور بین الاقوامی قوانین کی "کھلی خلاف ورزی” قرار دیتے ہوئے بھارتی حکومت سے فوری وضاحت اور تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ واقعہ بھارت کی تاریخ میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ایک اور سیاہ باب ہے جو عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑرہا ہے۔ اب آئیے بھارت کے انسانیت کے خلاف جرائم کا تاریخی طور پر جائزہ لیتے ہیں جو ایک ایسی داستان ہے جو منظم تشدد، نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے بھری پڑی ہے۔

بھارت جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے پر فخر کرتا ہے ایک ایسی سیاہ تاریخ کا حامل ملک ہے جو خونریزی اور ظلم کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔ روہنگیا مہاجرین کے ساتھ حالیہ واقعہ کوئی ایک مثال نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں بھارت کی طویل تاریخ میں جُڑی ہوئی ہیں، جہاں مختلف مذہبی، نسلی اور علاقائی گروہوں کے خلاف منظم تشدد کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہر ٹام اینڈریوز نے روہنگیا واقعے کو ناقابلِ معافی قرار دیا اور ایکس (سابقہ ٹویٹر)پر پوسٹس کے مطابق اس میں عورتیں، بچے اور کمزور افراد شامل تھے۔ یہ الزامات اگرچہ ابھی تفتیش کے مراحل میں ہیں لیکن بھارت کے مظالم کی تاریخ گواہ ہے ۔

بھارت کی انسانیت کے خلاف جرائم کی تاریخ 1947 کی تقسیم سے بھی پہلے کی ہے لیکن جدید بھارت میں یہ سلسلہ کئی اہم واقعات سے واضح ہوتا ہے۔ 1984 کا آپریشن بلیو سٹار اس کی ایک خوفناک مثال ہے۔ اس آپریشن کے تحت بھارتی فوج نے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل جو سکھوں کا مقدس ترین مقام ہے پر حملہ کیا تاکہ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور دیگر سکھ عسکریت پسندوں کو ہٹایا جا سکے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 493 شہری ہلاک ہوئے لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیموں کے مطابق 4,000 سے 8,000 سکھ زائرین جن میں عورتیں اور بچے شامل تھے، مارے گئے۔ فوج نے ٹینک، ہیلی کاپٹر اور بھاری ہتھیار استعمال کیے، جس سے گولڈن ٹیمپل اور اکال تخت کو شدید نقصان پہنچا۔ سکھ ریفرنس لائبریری جس میں نایاب مخطوطات اور تاریخی نوادرات تھے، نذر آتش کردی گئی ۔ اس واقعے نے سکھ برادری میں گہری دراڑ ڈالی اور اسے "سکھ نسل کشی” کا نام دیا گیا۔ اکال تخت نے اسے جینوسائیڈ تسلیم کیا لیکن بھارتی عدالتیں ذمہ داروں کو سزا دینے میں ناکام رہی ہیں۔

آپریشن بلیو سٹار کے بعد اندرا گاندھی کے قتل نے دہلی اور دیگر شہروں میں سکھوں کے خلاف منظم فسادات کو جنم دیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دہلی میں 2,800 اور پورے بھارت میں 3,350 سکھ قتل کر دئے گئے جبکہ غیر سرکاری ذرائع 8,000 سے 17,000 ہلاکتوں کا تخمینہ لگاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان فسادات کو "ریاست کی سرپرستی میں قتل عام” قرار دیا کیونکہ کانگریس پارٹی کے رہنماؤں نے مبینہ طور پر ہجوم کو ہتھیار، کیروسین (مٹی کاتیل)اور سکھوں کے گھروں کی فہرستیں فراہم کیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی 2011 کی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے ان فسادات کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی، جو انصاف کی سنگین ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج اور پولیس کے مظالم بھی انسانیت کے خلاف جرائم کی ایک واضح مثال ہیں۔ اقوام متحدہ کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق بھارت نے غیر آئینی قوانین جیسے ان لا فل ایکٹیویٹیز پرینشن ایکٹ (UAPA) کے ذریعے صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور عام شہریوں کو ہراساں کیا۔ 2011 میں بھارتی حکومت نے خود اعتراف کیا کہ کشمیر میں 2,000 افراد کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا، جن پر فوج اور پولیس پر ماورائے عدالت قتل کے الزامات ہیں۔ پیلٹ گنوں کااندھادھند استعمال کیا گیا، جس سے ہزاروں افراد نابینا ہوئے اور آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) نے سیکیورٹی فورسز کولامتناہی اختیارات دیے کہ وہ جومظالم وقتل گری کریں انہیں کوئی نہیں پوچھے گا۔ اقوام متحدہ کے کمشنر وولکر ترک نے عالمی توجہ دلائی، لیکن بھارت نے اسے "اندرونی معاملہ” قرار دے کر بین الاقوامی تفتیش سے انکار کیا۔

بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں جنہیں سیون سسٹرز کہا جاتا ہے (آسام، منی پور، ناگالینڈ، میزورم، میگھالیہ، اروناچل پردیش، تریپورہ) میں آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے فوجی کارروائیاں کی گئیں۔ میزورم میں 1966 میں بھارتی فضائیہ نے اپنی سرزمین پر بمباری کی جو بھارت کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں شہری ہلاک ہوئے اور "گروپنگ آف ولیجز” پالیسی کے تحت ہزاروں میزو باشندوں کو جبری نقل مکانی کروائی گئی، جس سے ان کی ثقافت اور معاشرے کو نقصان پہنچا۔ ناگالینڈ اور منی پور میں AFSPA کے تحت سیکیورٹی فورسز پر عصمت دری، تشدد اور جبری گمشدگیوں کے الزامات ہیں۔ آسام میں 1990 کی دہائی میں "خفیہ قتل” کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں سیکیورٹی فورسز نے مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کے رشتہ داروں کو ہلاک کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے AFSPA کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سبب قرار دیا لیکن بھارت نے اسے برقرار رکھاہوا ہے۔

وسطی اور مشرقی بھارت میں نکسلائٹس کے خلاف آپریشنز جیسے آپریشن گرین ہنٹ (2009-2010)نے آدی واسی (قبائلی) آبادیوں کو نشانہ بنایا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق چھتیس گڑھ میں سیکیورٹی فورسز نے آدی واسی خواتین کے خلاف عصمت دری اور تشدد کے واقعات کو چھپایا اور ہزاروں قبائلی باشندوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا۔ اقوام متحدہ نے 2013 میں بھارت سے آدی واسیوں کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا لیکن دہشت گرد بھارت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔

بھارت میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ 2002 کے گجرات فسادات میں ہزاروں مسلمان ہلاک اور زخمی ہوئے، جنہیں انسانی حقوق کی تنظیموں نے "ریاستی سرپرستی میں قتل عام” قرار دیا۔ سیٹزن شپ ایمنڈمنٹ ایکٹ (CAA) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) جیسے قوانین نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کو بڑھاوا دیا۔ اقوام متحدہ کی 2022 کی رپورٹ نے اسے انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیالیکن بھارت کے خلاف کوئی عملی اقدام نہ کیا گیا۔

سری لنکا میں لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (LTTE) کے خلاف بھارت کی انڈین پیس کیپنگ فورس (IPKF) کی کارروائیاں (1987-1990) بھی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا باعث بنیں۔ IPKF پر تامل شہریوں کے خلاف تشدد، عصمت دری اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات ہیں۔ اقوام متحدہ کی 2011 کی رپورٹ نے سری لنکا میں تامل شہریوں کے خلاف مظالم کو جنگی جرائم قرار دیا لیکن بھارت کو اس کے سیاسی اور جغرافیائی اثر و رسوخ کی وجہ سے کلین چٹ دے دی گئی۔ سری لنکا ایک چھوٹا اور کمزور ملک ہونے کی وجہ سے، اس کے جرائم عالمی برادری کی نظروں میں زیادہ نمایاں ہوئے جبکہ بھارت کے مظالم پر پردہ ڈال دیا گیا۔

ان تمام واقعات کے باوجود عالمی برادری کی خاموشی حیران کن ہے۔ بھارت کے انسانیت کے خلاف جرائم پر عالمی طاقتوں کی خاموشی کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے بھارت کو چین کے مقابلے میں ایشیاءمیں ایک اہم اسٹریٹجک اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ، یورپی یونین اور دیگر مغربی ممالک بھارت کے ساتھ دفاعی اور اقتصادی شراکت داری کو ترجیح دیتے ہیں۔ دوسری وجہ بھارت کی معاشی طاقت ہے جو مغربی کمپنیوں کے لیے ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ انسانی حقوق کے مسائل اٹھانے سے اقتصادی تعلقات خراب ہونے کا خطرہ ہے۔ تیسرا مغربی میڈیا بھارت کو "جمہوری ملک” کے طور پر پیش کرتا ہے جو اس کے مظالم کو پردے میں رکھتا ہے۔ آخر میں اقوام متحدہ کے پاس بھارت جیسے طاقتور ممالک کے خلاف سخت ایکشن لینے کی صلاحیت محدود ہے کیونکہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی ویٹو طاقت اور سیاسی دباؤبھارت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونے دیتے ،جس سے بھارت نے بلاروک ٹوک انسانیت کاقتل عام جاری رکھا ہوا ہے ۔

یہ عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی کے نتائج سنگین ہیں کہ بھارت کے مظالم نہ صرف متاثرین کے لیے تباہی کا باعث ہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے اصولوں کوبھی پامال کرتے ہیں۔ اگر عالمی برادری نے اب بھی آواز نہ اٹھائی تو یہ ایک خطرناک مثال قائم کرے گی کہ طاقتور ممالک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بچ سکتے ہیں۔ روہنگیا مہاجرین کا حالیہ واقعہ اس سلسلے کی ایک اور کڑی ہے جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑرہاہے۔

بھارت کے انسانیت کے خلاف جرائم کی اس تاریخ کو دیکھتے ہوئے، عالمی برادری سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے سوئے ہوئے ضمیرکو جگائے اور انصاف کے لیے آواز بلند کرے۔ اقوام متحدہ کو روہنگیا واقعے کی آزادانہ اور شفاف تفتیش کرنی چاہیے اور ذمہ داروں کو سزا دینی چاہیے۔ بھارت کو آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) اور ان لا فل ایکٹیویٹیز پرینشن ایکٹ (UAPA) جیسے جابرانہ قوانین ختم کرنے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کیلئے پابندکیاجائے اگربھارت نہ مانے تو اس اقتصادی ،تجارتی ،فوجی اور سفارتی پابندیاں لگائی جائیں۔ AFSPA ایک متنازع قانون ہے جو سیکیورٹی فورسز کو شورش زدہ علاقوں(جیسے کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں)میں وسیع اختیارات دیتا ہے بشمول بغیر وارنٹ گرفتاری، گولی مارنے کی اجازت اور قانونی استثنی، جس کے نتیجے میں ماورائے عدالت قتل، تشدد اور جبری گمشدگیوں کی شکایات عام ہیں۔ اسی طرح UAPA ایک انسداد دہشت گردی قانون ہے جو مبہم تعریفات اور سخت سزائوں کے ذریعے صحافیوں، کارکنوں اور عام شہریوں کو "دہشت گرد” قرار دے کر ان کے بنیادی حقوق سلب کرتا ہے جیسے کہ طویل عرصے تک بغیر مقدمے کے حراست میں رکھنا شامل ہے۔

اب وقت ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت کے مظالم کو عالمی عدالت انصاف (ICC) میں لے جائیں تاکہ انسانیت کے خلاف جرائم کی قانونی کارروائی ہو۔ اگر آج بھی اقسام عالم اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ،روہنگیا، سکھ، کشمیری یا دیگر اقلیتوںکے ساتھ ہونے والے ظلم پر خاموشی رہیں تو کل کوئی اور نسلی گروہ یااقلیت ان کے ظلم کا شکار ہوں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری بھارت کے انسانیت کے قتل عام پر اپنی خاموشی توڑے اور انصاف کا تقاضہ پورا کرے اور بھارت کا کڑامحاسبہ کیا جائے اور اسے انصاف کے کٹہرے میں کھڑاکیا جائے۔

Shares: