بوگس مردم شماری کے نتائج کوماننے سے انکار نئی مردم شماری کرائی جائے سیاستدان حکومت پر برس پرے

0
34

کراچی پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین الطاف شکور نے کہا ہے کہ غلط مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات کااعلان غیر قانونی عمل ہوگا۔پرانی مردم شماری کے نتائج کو یکسر کینسل کر کے بلدیاتی انتخابات نئی مردم شماری کے تحت کرائے جائیں۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم مردم شماری کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں آئیں لیکن مشترکہ مفادات کونسل میں مردم شماری کے نتائج کو درست تسلیم کر کے بھیگی بلی بن گئیں اور اف تک نہ کی۔

ملک کے تمام شہریوں کے ساتھ یکساں انصاف کیا جائے۔ کراچی کو مرکز اور صوبہ دونوں نے حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور کراچی کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر کراچی کو اس کا حق نہیں دیا گیا۔ خان صاحب مدینے کی ریاست کا خواب پورا نہ کر سکے کم از کم مغربی طرز کا انصاف ہی قائم کر دیں۔ مردم شماری کے بوگس نتائج کو تسلیم کر کے نئی مردم شماری کا اعلان، نئی مردم شماری کو ابھی سے مشکوک اور قابل اعتراض بنانے کی بھونڈی کوشش ہے۔

یہی وقت ہے کہ اہل کراچی کے زخموں پر مرہم رکھا جائے۔ ہر قومیت اور ملک کے ہر علاقہ کے شہریوں کے ساتھ آئین و قانون کے مطابق یکساں اور انصاف پر مبنی سلوک کیا جائے۔ مردم شماری کے نتائج کی تشریح کا فریم ورک بنایا جائے۔ مشترکہ مفادات کونسل میں 2017کی مردم شماری کے بوگس نتائج کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ ہی 2023 میں نئی مردم شماری کے اعلان پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین الطاف شکور نے مزید کہا کہ اگر فیصلہ کرنے کا فریم ورک تبدیل نہ کیا گیا تو نئی مردم شماری کی حیثیت ایک ڈھکوسلا سے زیادہ نہیں ہے۔

مردم شماری کے لئے ایک آزاد اور غیر جانبدار کمیشن بنایا جائے۔ بڑی سیاسی پارٹیاں اشرافیہ کے ساتھ ملی بھگت کر کے کراچی کے عوام کے ساتھ دشمنی اور عوام کے بنیادی حقوق نگل رہی ہیں۔ اگر غیر جانبدار مبصرین کی نگرانی میں انتخابات کرائے جا سکتے ہیں تو مردم شماری آزادانہ اور شفاف طریقے سے کرانے میں کیا قباحت ہے؟ مردم شماری کے نتائج کو درست تسلیم کرنے کے فیصلہ پر پی پی پی اور ایم کیو ایم کی خاموشی معنی خیز ہے، احتجاج اوربائیکاٹ کیوں نہیں کیا گیا؟ مشترکہ مفادات کی کونسل نے نتائج کو نوٹیفائی کرنے کا فیصلہ کرکے ان کے ”درست” ہونے پر مہر ثبت کردی ہے، کیونکہ غلط نتائج کبھی نوٹیفائی نہیں ہوسکتے۔

پی ڈی پی کے چیئرمین الطاف شکور نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ پچھلی مردم شماری میں جتنی آبادی ظاہر کی گئی ہے اتنے تو مزدور کراچی میں آکر کام کرتے ہیں۔ مردم شماری کرنے سے پہلے مردم شماری کے نتائج کی تشریح کا فریم ورک بنایا جائے۔ اگر پرانا طریقہ کار اختیار کیا گیا تو کراچی کی آبادی پھر آدھی ظاہر کی جائے گی۔ کراچی میں روزگار کی تلاش میں آنے والے مستقل طور پر یہاں آباد ہیں انہیں کراچی کا رہائشی شمار کیا جائے۔

مردم شماری تمام معاشی وسائل کی تقسیم کی بنیاد ہے اور بنیاد ہی درست نہ ہو تو باقی نظام کیسے درست رہ سکے گا؟ ایک عام پاکستانی کے منہ سے نوالہ چھین کر وڈیروں، جاگیرداروں اور اشرافیہ کو کب تک کھلایا جاتا رہے گا؟ کم پاکستانی اور زیادہ پاکستانی ہونے کی تقسیم ختم کی جائے۔ جو لوگ کراچی میں ایک سال سے زائد کے رہائشی ہیں وہ ساحل سمندر کی سیر کے لئے نہیں آئے ہیں ان کی کراچی سے معاشی وابستگی ہے انہیں کراچی کا باشندہ تصور کیا جائے

Leave a reply