سانحوں کے بعد بوجھ وہ اٹھاتے ہیں جن میں جرات ہو،تحریر:نوید شیخ

0
26

اس سرد موسم میں بیانیے کی جنگ میں گرمی آتی جار ہی ہے ۔ حکومت ہو یا اپوزیشن سب ہی اپنے اپنے حساب سے دعوے کررہے ہیں۔ کہ عنقریب یوں ہوجائے وہ جائے گا کہ جس کا کسی کو بھی کوئی گمان نہ ہوگا ۔

۔ دیکھا جائے تو پہلی تیلی چند منظور نظر وزیروں اور مشیروں نے خود لگائی ہے جس کے بعد اب اپوزیشن جماعتیں اپنی چالیں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔ اور انھوں نے تابڑ توڑ حملے شروع کردیے ہیں ۔یوں اب شہباز گل جیسے مشیروں کے پاس ایک ہی چیز رہ گئی ہے کہ وہ قوم کو بتا رہے ہیں جلد ایک اور آڈیو یا ویڈیو لیک ہونے والی ہے ۔ یہ ہے ان کی کارکردگی ۔۔۔ ۔ دیکھا جائے تو اپوزیشن نے وزیروں اور مشیروں کی کہی ہوئی باتیں ان کے ہی منہ پر مارنا شروع کردی ہیں تو غلط نہ ہوگا ۔
۔ میں آپکو بتاوں کہ یہ جو حکومت کی جانب متواتر باتیں کی جارہی ہیں کہ اب بھی ہم پر ہاتھ ہے ۔ اب بھی ہم ہی منظور نظر ہیں ۔ اسکی خاص وجہ ہے ۔ دراصل تحریک انصاف اپنے اتحادیوں سمیت اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو پیغام دے رہی ہے ۔ کہ اب بھی ہمارے حالات اچھے ہیں ۔ اب بھی صحفہ ایک ہی ہے ۔ اس سے ان کا خیال یہ ہے کہ جو جانے والے ہیں وہ روک جائیں گے ۔ مگر میں آپکو بتاوں یہ جانے والے بڑے تیز ہوتے ہیں ۔ یہ دہائیوں سے یہ ہی کام کرتے آرہے ہیں ۔ ان کو وقت سے پہلے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ نیا کیا ہونے والا ہے کون آنے والا ہے اور یہ ایسی ایسی بازی کھیل جاتے ہیں کہ کسی کے وہم وگمان میں نہیں ہوتا ۔۔۔

۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جہاں سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہاہے کہ بہت جلد کچھ ہونے والا ہےاور عمران خان کے پیروں کے نیچے سے زمین ایسے کھسکے گی کہ انہیں پتا بھی نہیں چلے گا۔۔ تو سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا دعوی ہے کہ وہ بائیس افراد کو جانتے ہیں جو اب حکومت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور دیکھناحکومت ایک دن بھی بیساکھیوں کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ انہوں نے کہا کہ بائیس لوگ ہٹ جائیں تو حکومت اکثریت کھو دے گی پھر شاید عدم اعتماد کی ضرورت نہ پڑے۔ اچھا انھوں نے یہ کوئی ایسی بات نہیں کی ہے کہ جو صرف بیان ہو ۔ حالیہ پی ٹی آئی کی اہم اتحادی ق لیگ کے بیانات سے لے کر تحریک انصاف کے اپنے ناراض لوگوں کے بیانات اٹھا کر دیکھنا شروع کردیں ۔ تو عمران خان کے لیے کافی خوفناک تصویر واضح دیکھائی دینا شروع ہوجاتی ہے ۔ آپ دیکھیں کپتان سے نور عالم خان تک تو برداشت نہیں ہوئے ۔ پی ٹی آئی نے مہنگائی، گیس اور بجلی کے حوالے سے اپنی ہی جماعت پر تنقید کرنے والے نور عالم خان کو شوکاز نوٹس کے علاوہ اب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے ہٹانےکی درخواست کر دی ہے ۔عامر ڈوگر کی جانب سے اسپیکر قومی اسمبلی کو لکھے گئے خط میں نور عالم خان کی جگہ حیدرعلی خان کوپی اے سی کا رکن بنانے کا کہا گیا ہے۔۔ ویسے اگر عمران خان دور اندیش ہوتے تو اپنی پارٹی کی سمجھ دار آوازوں پر کریڈیٹ بھی لے سکتے تھے کہ پارٹی میں ہر طرح کی بات ہوتی ہے اور سنی جاتی ہے ۔ مگر انھوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کو بھی صرف خوشامدی پسند ہیں ۔ وہ آمرانہ سوچ کے حامل ہیں ۔ جو ان کو آئینہ دیکھائے وہ برداشت نہیں ۔ تو خود حساب لگا لیں کہ پی ٹی آئی کی کیا اوقات ہے کتنا حوصلہ ہے ۔ بس ایک تقریر کی مار ہے ان کا انصاف ۔۔۔ ویسے یہ جمہوریت کے چیمپئین بنتے تھکتے نہیں ہیں ۔

۔ اب آپ کو سمجھ آئی کہ کیوں پی ٹی آئی میں مشیر اور وزیر شہباز گل ، فواد چوہدری ، فیاض الحسن چوہان جیسے لوگ ہی بنتے ہیں ۔ وجہ صاف ہے کہ کپتان سے تنقید برداشت نہیں ۔ مثالیں ریاست مدینہ کی دیتے ہیں پر اگر کوئی کپتان پر انگلی اٹھائے تو ان سے برداشت نہیں ہوتا۔ اس لیے اب تحریک انصاف میں صرف مالشیے اور پالشیے ہی رہ گئے ہیں ۔ ۔ یاد ہو تو عمران خان یہ دعویٰ کرکےآئےتھےکہ وہ مفادات کےٹکراو کےخلاف ہونگے۔ مگر عمران خان کی پوری کابینہ اُن لوگوں سےبھری پڑی ہےجن کے اپنے کاروبار اور مفادات ہیں۔ یہی اراکین کابینہ میں بیٹھتے ہیں ،اقتصادی رابطہ کمیٹی میں بیٹھتے ہیں اور یہی بینیفشری ہیں۔۔ اسی حوالے سے نور عالم خان کا کہنا تھا کہ وہ پی اے سی میں سرکاری افسران، کارٹلز مافیا کی بدعنوانیوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔ یہ وہی مافیا ہے جس کے وفادار پہلی تین قطاروں میں موجود ہیں۔ اس لیے ان کو سزا دی جا رہی ہے ۔ ۔ اچھا ان پہلی تین قطاروں میں بیٹھے وہ لوگ ہوتے ہیں جو پی ٹی آئی میں deputationپر آئے ہوئے ہیں ۔ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو کسی صورت پارٹی کے وفادار نہیں ۔ یہ بڑے تجربہ کار لوگ ہیں انھوں نے ہر گھاٹ کا پانی پی رکھا ہے ۔ یہ جس بھی پارٹی کی حکومت ہو ۔ اس میں کسی نہ کسی طرح وزیر لگ جاتے ہیں ۔ اور جیسے ہی دوسری حکومت آتی ہے تو یہ پہلے والی کو ایسے چھوڑتے ہیں کہ ہر کوئی حیران وپریشان ہوجاتا ہے ۔ یہ دہائیوں سے ہر تبدیلی کے ساتھ کھڑے دیکھائی دیتے ہیں ۔ ۔ یہ جو وزراء دعوے کر رہے ہیں اگلے پانچ برس بھی ان کی ہی حکومت ہوگی تو کچھ بعید نہیں کہ یہ اگلی حکومت کو بھی حصہ ہوں چاہے جماعت جو بھی ہو ۔ ن ہی لوگوں کی وجہ سے تبدیلی تو کبھی عوام کو میسر نہیں آئی البتہ ان تمام لوگوں کے حالات تبدیل ہوچکے ہیں اور ان کے سر پر عمران خان یہ تمام جوا کھیل رہے ہیں ۔ اس سے اندازہ کر لیں کہ عمران خان کتنے دوراندیش اور بندہ شناس ہیں ۔

۔ عمران خان کی اس ہی ڈکٹیٹر شپ سوچ نے پارٹی کے اندر بھی اور باہر بھی بے چینی پیدا کی ہوئی ہے ۔ اس لیے اب صرف اپوزیشن ہی نہیں صحافی تجزیہ کار سب ہی خبر دے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کو اپنی صفوں میں ٹوٹ پھوٹ کا سامنا ہے جو بڑھتا جا رہا ہے۔۔ یہ حقیقت ہے کہ جہانگیرترین فیکٹر، آٹا بحران، گندم سیکنڈل، چینی سیکنڈل، ایل این جی سیکنڈل، عوام پر آئے دن ٹیکسوں کا بوجھ، پٹرول بجلی گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے، ریکارڈ توڑ مہنگائی اور بے روزگاری ، سخت شرائط پر ریکارڈ غیر ملکی قرضوں کا حصول، صنعت تباہ،زراعت تباہ، معیشت تباہ، سرمایہ کاری ٹھپ، جیسے میڈل اپنے سینے پر سجانے والی شاید یہ پہلی حکومت ہے ۔ ۔ چند وزراء اور درجن بھر ترجمانوں کے مخالفوں پرپے درپے حملوں کو ہی گورننس سمجھ لیا گیا ہے ۔ عوام حیران ہیں کہ مہنگائی میں روزانہ کی بنیاد پر مسلسل اضافے، پٹرول گیس اور بجلی کی قیمتوں میں من مانے اضافے کے باوجود بھی یہ حکومت ڈھٹائی کے ساتھ سب اچھا کا راگ کیسے الاپ لیتی ہے ۔ ۔ پھر آج سانحہ مری کی تحقیقاتی ٹیم نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو رپورٹ پیش کردی گئی ہے ۔حل پھر وہ ہی ہے کہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھاکہ کمشنر، ڈپٹی کمشنر ، سی پی او راولپنڈی، سی ٹی او راولپنڈی، ڈی ایس پی ٹریفک اور اے ایس پی مری کو عہدے سے ہٹاکرانضباطی کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ جبکہ ڈویژنل فاریسٹ آفیسر مری ، ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر مری، انچارج مری ریسکیو1122 اور ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے پنجاب کو معطل کردیا گیا ہے۔ یوں وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ قوم سے سانحہ مری کی شفاف انکوائری کا وعدہ پورا کردیا گیا ہے۔میرا سوال ہے کہ کیا صرف معطلیوں سے جو 23لوگوں نے اپنے جانیں گنوائیں ۔ اسکا کفارہ ہوجائے گا ۔ کیا صرف سرکاری ملازم ہی اس سانحہ کے ذمہ دار تھے ۔ کیا وزیر اعظم ، وزیر اعلی ، وزیروں اور پنجاب حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی کوئی کوتاہی نہیں تھی ۔

۔ وزیراعظم عمران خان کہا کرتے ہیں کہ مغرب کو مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے۔ مغرب کی برفباری سے کون واقف نہیں ہے۔ اگر سربراہ مملکت مغرب کو جانتا ہوتا تو سڑکوں پہ مطلوبہ مقدار میں نمک ڈالا جاتا۔ مغربی ممالک میں جب زیادہ مقدار میں برفباری ہوتی ہے تو ایمرجنسی لگا دی جاتی ہے۔ لوگوں کو گھروں سے نہیں نکلنے دیا جاتا۔ لیکن ہمارے ہاں نظام ہی نرالا ہے۔ ہم گاڑیوں کی تعداد پہ فخر کر رہے تھے۔ جب حکومتوں کی کارکردگی نہیں ہوتی تو ترجمان پھر بھی کارکردگی دکھاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو ہم نے مری میں دیکھا۔جنہوں نے خود ایمرجنسی لگانی تھی وہ بیس گھنٹے لوگوں کی فون کالز سننے کے بعد بھی کوئی عملی اقدام نہ کر سکے۔ ان کے پاس کوئی پلان ہی نہیں تھا۔ ملک کا وزیر داخلہ شیخ رشید فرما رہا تھا لوگ خود چھوٹے چھوٹے سے بچے لیکر مری آ جاتے ہیں۔ ہم کیا کریں۔ وزیراعظم بھی کہہ رہا تھے کہ انتظامیہ اتنے لوگوں کے لیے تیار نہیں تھی۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ عورت موٹروے پہ کیوں گئی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ لوگ مری کیوں گئے۔ ۔ یہ سب ریکارڈ پر ہے کہ برف میں پھنسے ہوئے لوگ، ان کے عزیز و اقارب اور ان کے دوست احباب کالیں کرتے رہے لیکن حکومتی عمائدین خواب خرگوش کے مزلے لیتے رہے۔ آپ تین منٹ کی بجائے تین گھنٹے میں بھی پہنچ جاتے تو لوگوں کو مرنے سے بچایا جا سکتا تھا۔ ۔ آخر میں تمام کا تمام ملبہ انتظامیہ پر ڈال دینا کسی صورت ہضم نہیں ہوسکتا ۔ کچھ تو بوجھ حکومت کو اٹھانا چاہیے تھا ۔ ۔ پر میں آپکو بتاوں ایسے سانحوں کے بعد بوجھ وہ اٹھاتے ہیں جن میں جرات ہو ، اخلاقیات ہوں ، کردار ہو ۔۔۔ اس حکومت سے یہ امید رکھنا کہ یہ اپنی
۔۔۔ منجی تھلے ڈانگ پھیر لیں گے ۔۔۔
دیوانے کا خواب ہے ۔۔

Leave a reply