برانڈڈ چیزوں کی خواہش .تحریر: حنا

0
41

ایک ڈیڑھ سال پہلے ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ ایک بہت بڑے اور نامی گرامی ہوٹل میں 11 مردوں نے اجتماعی زیادتی کر ڈالی تھی ۔۔اس وقت مجھے بہت دکھ ہوا ۔۔۔ان گیارہ درندوں کو عبرت ناک موت دینے کو دل چاہ رہا تھا ۔۔۔۔لیکن اب بات میری سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ ایک بہت بڑے ہوٹل میں وہ لوگ لڑکی کو بنا اسکی مرضی کے لے کر پہنچ کیسے گئے؟؟؟
فرض کر لیتے ہیں کہ اسے ایک ہوٹل میں بلایا گیا تھا۔ یعنی وہ اپنی مرضی سے گئی تھی ۔۔۔۔

کیا بنا مرضی کے کسی ہوٹل میں لے جائی جا سکتی ہے ؟؟اور وہ بھی ایسی صورت میں کہ ایک بندے نے روم بک کیا ہو ۔۔۔۔ایک بہت بڑے ہوٹل میں ایک لڑکی کے ساتھ 11 بندے زیادتی کر رہے ہیں اور ساتھ والے کمرے میں آواز تک نہیں جا رہی ؟ عجب نہیں لگے گا ؟ ایک لڑکی جو دو دن سے گھر سے غائب ہے۔ اور بننا بھی ماڈل چاہتی ہے تو کیا اس کے گھر والوں کو علم نہیں ہوگا کہ ہماری بیٹی اسی سلسلے میں کسی سے ملنے گئی ہے ؟۔۔اسی طرح ایک اور واقعہ کچھ عرصہ پہلے کہ لڑکی کا ایک کلاس فیلو ساتھ چکر تھا ۔۔لڑکے کے ساتھ چکر میں گھر والوں کو چکر دیتے دیتے ایسا چکرائ کہ پتہ چلا پریگنٹ ینعی حاملہ ہو گئ ۔۔حاملہ ہووی ۔۔دن بدن حالت بگڑی ۔۔وہی لڑکا جس کے ساتھ چکر تھا وہ ہسپتال میں لاوارث چھوڑ کر فرار ۔۔۔۔پھر خبر ملی لڑکی مر گئ ۔۔۔۔۔۔ایسے ہی بے شمار واقعات آئے روز ہماری نظروں سے گزرتے ہیں ۔کہیں لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگنے والی عثمان مرزا جیسے حیوانوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے تو کہیں گھر سے بھاگنے کے چکر میں اپنے ہی گاوں کے وڈیروں کی ضد پہ غیرت کے نام پہ موت کے گاٹ اتار دی جاتی ہے ۔۔سمجھ نہیں آتی ۔۔آج کی لڑکیوں نے خود ہی اپنی عزتوں کا تماشہ کیوں بنایا ہوا ہے ۔۔۔کہیں کوی ٹک ٹاک پہ چار لڑکوں کے ساتھ ناچ رہی ہے ۔۔تو کہیں کوی یوٹیوب انسٹا پر اپنی خوبصورتی کی نمائش لگا کر بیٹھی ہے ۔۔اور پھر چند لوگوں کے واحیات کمنٹس کو بھی ہنس ہنس کر جواب دے رہی ہوتی ہے ۔۔تو کہیں پیزہ برگر آئس کریم کھلانے کا وعدہ کرنے والے کے ساتھ ماں کو نیند کی گولیاں دے کر راتیں ہوٹلوں میں گزار رہی ہوتی ہے پہلے پہل سنا جاتا تھا کہ جسم فروشی کا دھندہ گرلز ہاسٹل اور یونیورسٹیوں میں بڑی خاموشی سے ہوتا ہے۔ لیکن میری معلومات کے مطابق اب یہ یونیورسٹی سے نکل کر کالج اور سیکنڈری سکولوں تک پہنچ چکا ہے۔۔۔

اور کچھ کو لگتا ہے۔اس کے پیچھے باقاعدہ نیٹ ورک ہوتا۔ یہ شروع ہوتا ہے احساس محرومی سے اور مقابلے کے رجحان سے۔ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے ہر دوسری لڑکی کے پاس سمارٹ فون موجود ہے اور وہ سمارٹ فون کہاں سے آتا ہے یہ کوئی نہیں سمجھنا چاہے گا۔ گھر بیٹھے بیٹھے اس سمارٹ فون میں ایزی لوڈ کہاں کہاں سے آجاتا ہے یہ کوئی سمجھنا نہیں چاہے گا۔۔روز 50 روپے خرچہ لے جانے والی لڑکی کے پاس مہنگے موبائل، کپڑے، پرفیوم کہاں سے آگئے۔ یہ بھی ایک جسم فروشی ہے

اب ہوتا کیا ہے۔ ہر سکول ، کالج اور یونیورسٹی میں امیر لوگوں کے بچے بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور غریب لوگوں کے بھی۔ جب لڑکی اپنی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی کے پاس مہنگا ترین موبائل دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ یہی موبائل میرے پاس بھی ہو۔
جب وہ ہر روز اپنی سہیلی کو نئے اور مہنگے کپڑے پہنے دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ وہ بھی اسی طرح کے کپڑے پہنے۔ جب وہی لڑکی مہنگے کاسمیٹکس اور پرفیوم اپنی سہیلی کے چہرے پر تھوپے دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ وہ بھی ان چیزوں کو استعمال کرے۔ جب وہ اپنی سہیلی کے بوائے فرینڈ کو اپنی سہیلی کے ساتھ روز یا ہر دوسرے دن میکدونلڈ میں برگر کھانے جاتا دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ وہ بھی ہر روز کسی کے ساتھ برگر کھانے جائے۔

کوئی اسکا بھی ایسے ہی نخرے اٹھانے والا دوست ہو۔ یہاں سے اپنی مرضی سے جسم فروشی کی سوچ کا بیج بونا شروع ہو جاتاہے۔ اور کمال منافقت یہ ہے کہ نہ لڑکی اسے جسم فروشی ماننے کو تیار ہوتی ہے نہ لڑکا سمجھتا ہے کہ وہ جسم خرید رہا ہے۔ بلکہ دونوں اسے پیار اور گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کا نام دیتے ہیں۔ اب یہ مجھے بتانے کی شاید ضرورت نہیں کہ ایک ہی لڑکی یا لڑکے کے بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ اکثر بدلتے بھی رہتے ہیں۔ غریب لڑکی چاہے گی کہ اسکا بوائے فرینڈ گاڑی والا ہو آئے روز اسے مہنگے گفٹ دے ۔۔۔جو وہ اپنی امیر سہیلی کے مقابلے میں استعمال کر سکے ۔۔حسد ۔۔حسد ہر برائ کی جڑ ہے ۔۔۔حسد کی آگ میں جلنے والے لوگ پھر یہ نہیں دیکھتے کہ وہ حد کی بھی حد پار کررہے ہیں ۔۔۔وہ نہیں دیکھتے کہ گھر میں بوڑھے والدین ان کی فیسیں کیسے جمع کرتے ہیں ۔۔وہ یہ نہیں دیکھتے ۔۔کہ گھر میں بیٹھی جوان بہنیں شادی کی عمر کو ہے ۔۔۔۔وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کل ان کا کیا کہیں ان کی بہنوں کے آگے نہ آجائے ۔۔وہ بس چلتے جاتے ہیں اندھا دھند ۔۔۔۔۔اور ٹھوکڑ لگنے پر بھی معافی مانگنے کی بجاے حرام موت لینا پسند کرتے ہیں ۔۔۔

طوائف اگر اپنا جسم پیچ کے اپنے بچوں کیلئے روٹی خریدے تو وہ جسم فروشی ہوئی۔ اور ایک سٹوڈنٹ اگر آئے روز اپنا پارٹنر بدلے۔ روز پیسے لے۔ ایزی لوڈ مانگے۔ موبائل گفٹ لے ۔مہنگے قیمتی سوٹ لے ، پرفیوم لے تو یہ جسم فروشی نہیں۔ ایسا کیوں ؟ یہ دوہرا معیار صرف ہمارے معاشرے میں ہی کیوں؟
میں یہاں مرد ذات کو ڈیفینڈ نہیں کر رہی صرف یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ حضور تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے…….
خدارا لڑکیوں اپنی عزت کو سمجھو۔۔۔۔۔یہ دنیا محض فانی ہے ۔۔۔۔۔۔مہنگی اور برانڈڈ چیزوں سے نہیں عزت سے زندگی گزارو۔۔۔۔

۔

Leave a reply