بریسٹ کینسر کا عالمی دن, پنک ربن بمقابلہ ٹیبو !!! — بلال شوکت آزاد

0
44

عورت کسی بھی گھر بلکہ کسی بھی معاشرے میں اہمیت کی حامل اور مانندِ ریڑھ ہوتی ہے۔ اگر عورت صحت مند اور تندرست نہ رہے تو گھر کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور اگر عورتیں کسی ایسی موزی و خطرناک بیماری میں مبتلا ہوجائیں تو گھر تو گھر معاشرے کا نظام اور توازن بھی درہم برہم ہوسکتا ہے۔

کیونکہ ایک عورت ایک گھر ایک خاندان پر مشتمل یونٹ کی وہ بنیادی اکائی ہوتی ہے جو کسی جسمانی یا نفسیاتی بیماری کا شکار ہوجائے تو پورا گھر ایک ایسی افرا تفری اور انتشار سے روبرو ہوتا ہے جو اپنے آپ میں ایک الگ مسئلہ ہے۔

اس صورتحال میں گھر اور معاشرے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عورت کی صحت کا خیال کرے, اس کو پیش آمدہ صحت کے مسائل سے ناصرف باخبر رہے بلکہ عورت کو ہر دم آگاہی بہم پہنچاتا رہے تاکہ عورت اپنا اور اپنی صحت کا خیال رکھ سکے۔

بریسٹ کینسر یا چھاتی کا سرطان بھی ایک ایسی موزی اور خطرناک بیماری ہے جس کا شکار مرد اور عورت دونوں ہوسکتے ہیں لیکن اس کا سب سے زیادہ شکار عورتیں ہورہی ہیں اور ہوتی ہیں۔

اگر بریسٹ کینسر کی تشخیص بروقت ہوجائے تو قیمتی جان بچانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں, ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ہمارے ہاں ہر نو میں سے ایک خاتون بریسٹ کینسر میں مبتلا ہوتی ہے لیکن گزشتہ دس پندرہ سالوں سے پاکستان میں اس حوالے شعور و آگاہی پھیلانے کی مہم چلائی جاتی ہے جس کا سہرا بلخصوص پنک ربن Pink Ribbon نامی این جی او کو جاتا ہے جو فی سبیل اللہ اس موذی مرض کے خلاف نا صرف متحرک ہیں بلکہ اس کے تدراک کے لیے عملی کوششوں میں ہراول دستے کا کردار ادا کررہیں۔

پنک ربن Pink Ribbon پاکستان بھر میں بریسٹ کینسر اویئرنس سیمینارز, کانفرنس اور لیکچرز منعقد کرواتے ہیں اور معاشرے کے باشعور و پڑھے لکھے طبقے کی مدد سے ناخوانداہ افراد کو آگاہی پہنچانے کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔

پنک ربن Pink Ribbon کے سروے کے مطابق پاکستان میں ہر 24 گھنٹے میں 109 خواتین بریسٹ کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں جاتی ہیں۔ سالانہ 90,000 نئے چھاتی کے کینسر کے واقعات کے اضافے کے ساتھ سالانہ 40,000 سے زیادہ اموات ایک سنگین تشویش کا معاملہ اختیار کرتا جارہا ہے۔ اگرچہ، بروقت تشخیص اور مناسب علاج چھاتی کے کینسر کے مریضوں کے زندہ رہنے کے امکانات کو 90 فیصد تک بڑھا سکتا ہے, لیکن اس کے لیے ہمیں کھل کر بریسٹ کینسر پر بات کرنی ہوگی کیونکہ ماہواری اور دیگر خواتین کے نفسیاتی و جسمانی اور معاشرتی مسائل کی طرح اس بیماری پر بات کرنا بھی ہمارے معاشرے میں ایک ٹیبو ہے مطلب لوگ ناک منہ چڑھاتے اور اس مسئلے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔

اسی لیے ملک بھر میں چھاتی کے کینسر سے متعلق آگاہی پیدا کرنے سے لے کر حکومتوں اور نجی تنظیموں کے ساتھ مؤثر اتحاد قائم کرنے سے لے کر سپریم کورٹ کے ذریعے عدالتی وکالت تک؛ پنک ربن نے کامیابی کے ساتھ ‘چھاتی کے کینسر’ کے ممنوع موضوع کو ایک فعال ‘نیشنل ہیلتھ ایجنڈا’ میں تبدیل کر دیا ہے۔

دوسری طرف، پنک ربن Pink Ribbon پاکستان کا پہلا بریسٹ کینسر ہسپتال بنا رہے ہیں جو اب تک 60 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ ہسپتال کا مقصد سالانہ 40,000 چھاتی کے کینسر کے مریضوں کو او پی ڈی، الٹراساؤنڈ، میموگرام، کیموتھراپی، سرجری، اور ان ڈور پیشنٹ ڈیپارٹمنٹ کی سہولت سمیت عالمی معیار کی تشخیص اور علاج کی خدمات فراہم کرنا ہے۔

پنک ربن ایک خیراتی ادارہ ہے جو خالصتاً زکوٰۃ، صدقات اور عطیات کی شکل میں عوامی فلاحی کاموں پر منحصر ہے, اس لیے عوام کو جس میڈیم سے بھی بریسٹ کینسر اور پنک ربن کی بابت معلومات ملیں وہ حسب توفیق اس کار خیر میں اپنا حصہ بقدر جثہ ضرور جمع کروائیں۔

یاد رکھیں یہ مرض زیادہ تر عورتوں کو لاحق ہوتا ہے جو آپ کی ماں, بہن, بیوی اور بیٹی کے روپ میں اس معاشرے میں ہر لمحہ موجود رہتی ہیں اس لیے اس خطرناک اور موذی مرض کی آگاہی لازمی لیں اور اپنے گھر کی عورتوں کو اس بارے میں بتاکر ان کا خوف کم کریں کہ اگر بروقت تشخیص ہوجائے تو سروائیول کے چانسز بہت زیادہ ہیں البتہ دیر ہوجائے یا بلکل معلوم ہی نہ ہو تو پھر اس مرض سے موت ہونا طے امر ہے۔

یہ بیماری خاموشی سے ہمارے معاشرے میں پھیل اور پھل پھول رہی ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف اس بابت ناقص معلومات یا کم علمی تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی اس بیماری کے پھیلنے اور اس قدر خطرناک ہونے کی اصل وجہ شرمساری اور خاموشی بھی ہے۔

گھریلو خواتین جن کی آنکھ ایک پدر سری اور توہم پرستی سے لبریز معاشرے میں کھلی ہے وہ نہ تو خود توجہ دیتی ہیں اور نہ ہی کسی ڈاکٹر سے ایسے مسائل کھل کر ڈسکس کرتی ہیں کہ نام نہاد مشرقیت اور خود ساختہ شریعت کا بھاری بھرکم بوجھ پہلے ہی سینے پر ہوتا ہے کہ اگر بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوگئی تو دنیا کیا سوچے گی, میرے گھر کے مرد کیا سوچیں گے وغیرہ وغیرہ اور بیشک ہمارے سماج کی عورتوں کا یہ ڈر خوف اور شرمساری بے جا بھی نہیں کہ ہمارے معاشرےکا مرد عورت کی زیب و زینت کا تو خوب عاشق اور متمنی رہتا ہے لیکن اس کی اسی زیب و زینت کی طبی صحت اور نفسیاتی عوامل سے اس کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

آپ مرد ہیں تو یہ بات سمجھ لیں کہ ہمارے معاشرے کا ٹیبو Taboo خواہ وہ ماہواری کے مسائل پر آگاہی ہو, سیکسشوئیل معاملات پر آگاہی ہو یا پھر سروائیکل و بریسٹ کینسر کی بابت آگاہی ہو کو آپ ہی توڑ سکتے ہیں اگر آپ خود سے ان معاملات پر آگاہی حاصل کریں اور اپنی بیوی کو بتائیں اور سمجھائیں اور وہ پھر آگےآپکی ماں بہن بیٹی اور تمام رشتہ دار خواتین کو آگاہی دے تو آپ صدقہ جاریہ کی وجہ بن سکتے ہیں۔

عورتیں خواہ مغرب کی ہوں یا مشرق کی۔ ۔ ۔ جب تک ان کو ان کے باپ, شوہر, بھائی اور بیٹے ہمت, حوصلہ اور اعتماد نہ دیں وہ بیچاریاں اپنی ذات سے متعلق مسائل, امراض اور معاملات میں بھی تذبذب, ڈر, خوف اور شرمساری کا شکار رہ کر موت کو تو گلے لگالیتی ہیں لیکن کسی اپنے یا پرائے سے اس قدر ممنوعہ بنا دیئے گئے معاملات ڈسکس نہیں کرپاتی۔

آج بریسٹ کینسر کی آگاہی کا عالمی دن تھا لیکن ہمارے ہاں سوائے پنک ربن Pink Ribbon کے کوئی اس دن کو یاد نہیں کرتا اور نہ ہی خود سے اپنی گھر کی عورت کو اس بابت کچھ پتہ کرنے یا بتانے کا قصد کرتا ہے۔

بریسٹ کینسر کو مات دینی ہے تو پہلے معاشرتی اور سماجی شرم و حیا کا میکنزم اور ڈیکورم بدلیں ورنہ بریسٹ کینسر اور اس جیسی دیگر موذی بیماریاں آپ کے معاشرے کی عورت کو نگلتی رہیں گی کہ وہ شرم و حیا کا چولا پہنے مرتی مر جائیں گی لیکن اپنی بیماری یا اپنی تکلیف کو راز ہی رکھیں گی, جس سے عورتوں اور مردوں کا تناسب خراب ہوگا اور معاشرہ عدم توازن کی طرف جائے گاکہ

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

بہر کیف آپ کو بریسٹ کینسر سے متعلق جس طرح کی بھی معلومات درکار ہوں آپ بذریعہ انٹرنیٹ پنک ربن کی ویب سائیٹ اور سوشل میڈیا روابط سے حاصل کرسکتے۔ اس پیغام کو آج کے دن بلخصوص اور روزانہ کی بنیاد پر اپنے گھر کی خواتین سے ضرور شیئرکیجیئے تاکہ وہ خود اس مرض کی تشخیص کرنا سیکھ سکیں اور بروقت آگاہی سے موت کے منہ میں جانے سے بچ سکیں۔

Leave a reply