اے یار اب آ کے دیکھ تربت کو مری یہ مشت غبار کچھ دنوں میں دل تھا:عمرخیام کی زندگی کےروشن پہلو
اے یار اب آ کے دیکھ تربت کو مری
یہ مشت غبار کچھ دنوں میں دل تھا
عمر خیام
4 دسمبر 1131 یوم وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عظیم مسلمان سائنسدان’ فلسفی اور شاعر عمر خیام
10؍مئی 1048ء مطابق ٤٣٩ ہجری میں صوبے خراسان رضوی کے شہر نیشاپور، حکومت آل بویہ، فارس، خلافت عباسیہ، موجودہ خراسان، ایران میں پیدا ہوئے۔عمرخیام، طب، ریاضی، فلکیات اور فلسفہ میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ ان علوم کے علاوہ شعرو سخن میں بھی ان کا پایا بہت بلند ہے ان کےعلم وفضل کا اعتراف اہل ایران سےبڑھ کراہل یورپ نے کیا۔ سب سے پہلے روسی پروفیسر ولنتین ژوکو فسکی نے رباعیات عمر خیام کا ترجمہ کیا۔ پھر فٹنر جیرالڈ نے عمر خیام کی بعض رباعیات کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اور بعض اہم مضمون رباعیات کا مفہوم پیش کر کے کچھ ایسے انداز میں اہل یورپ کو عمر خیام سے روشناس کرایا کہ انہیں زندہ جاوید بنادیا۔
عمر خیام جب نجوم، ریاضی اور فلسفے کے پیچیدہ مسائل سے فارغ ہوتے تو شعر کی طرف مائل ہوتے۔ مختلف علوم میں ماہر ہونے کے باوجود عمر خیام کی شہرت کا سرمایہ ان کی فارسی رباعیات ہیں۔ رباعیوں کی زبان بڑی سادہ، سہل اور رواں ہے۔ لیکن ان میں فلسفیانہ رموز ہیں جو اس کے ذاتی تاثرات کی آئینہ دار ہیں۔ انہوں نے 8 سال کی عمر میں ریاضی اور فلسفہ کا مطالعہ کرنا شروع کیا. 12 سال کی عمر میں وہ نیشابور کی درسگاہ کے ایک طالب علم بن گئے۔ بعد میں انہوں نے بلخ، سمرقند اور بخارا کے درسگاہوں میں اپنی تعلیم مکمل کی.
ان کی قابل قدر تصانیف میں سے ‘میزان الحکمہ، لوازم الامکنہ، رسالہ فی براہین علی مسائل الجبر و المقابلہ، القول علی اجناس التی بالاربعا، رسالہ کون و تکلیف، رسالہ ای در بیان زیج ماکشاہی، رسالہ فی شرح ما اشکل من مصادرات کتاب اقلیدس’ اور رباعیات’ کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں جن کی رباعیات 200 اشعار پر مشتمل ہے۔ 04؍دسمبر 1131ء مطابق ٥٢٦ ہجری کو نیشاپور، خراسان، ایران میں انتقال کر گئے۔
وکیپیڈیا سے ماخوذ
(عمر خیام کی فارسی رباعی کا اردو میں ترجمہ)
پہلے غمِ ہجر گرمیِ محفل تھا
چندے برکابِ شوقِ ہم منزل تھا
اے یار اب آ کے دیکھ تربت کو مری
یہ مشتِ غبار کچھ دنوں میں دل تھا
افسوس کہ غم میں یہ جوانی گزری
یک دم نہ کبھی یہ شادمانی گزری
اب پیری میں ہو گی کیا عبادت ہم سے
بے یادِ خدا کے زندگانی گزری
ہے جام سے وابستہ جوانی میری
یہ مے ہے کلیدِ کامرانی میری
تم تلخ بتاتے ہو تو کچھ عیب نہیں
تلخ تو ہے عین زندگانی میری
پلا تو دے میرے ساقی نئی بہار کے ساتھ
عبث الجھتا ہے اس زہد کے سہار کے ساتھ
اجل ہے گھات میں دن زیست کے گزرتے ہیں
شرابِ ناب ہے موجوں میں بزمِ یار کے ساتھ
ہے مدتِ عمر بس دو روزہ گویا
ندی کا سا پانی ہے کہ صحرا کی ہوا
دو دن کا کبھی غم نہیں ہوتا ہے مجھے
اک دن جو نہیں آیا ہے، اک دن جو گیا
وہ جام جو تازہ جوانی دے دے
اس جام کو بھر کے یارِ جانی دے دے
لا جلد کہ ہے شعبدہ دنیا ساری
ہو جائے گی ختم یہ کہانی، دے دے
خورشید نے کمند سی پھینکی ہے سوئےبام
فرماں روائے روز نے مے سے بھرا ہے جام
مے پی کہ اٹھنے والوں نے ہنگامِ صبح کے
بھیدوں کو تیرے کھول دیا سب پہ لا کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلاش و ترسیل : آغا نیاز مگسی