سانحہ ماڈل ٹاؤن مشتاق سکھیرا،رانا عبدالجبارنے بریت کی درخواست دائر کر دی

لاہور:مشتاق احمد سکھیرا اور رانا عبدالجبار نے بریت کی درخواستیں دائرکردی ہیں،سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور انسداد دہشت گردی عدالت میں سابق آئی جی پنجاب پولیس مشتاق احمد سکھیرا اور رانا عبدالجبار نے بریت کی درخواستیں دائرکردی ہیں۔

ہفتے کولاہورمیں انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج اعجازاحمد بٹر نے درخواست پر سماعت کی۔ سابق آئی جی مشتاق سکھیرا اور سابق ڈی آئی جی رانا عبدالجبار نے درخواستوں میں موقف اختیار کیا کہ عدالت نے کمشنر لاہور کیپٹن (ر)عثمان کوبری کردیا ہے،ہمارا بھی اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ بھی کہا گیا کہ گولیاں کا آرڈر نہیں دیا اور صرف سیاسی بنیادوں پر نامزد کیا گیا،حقائق کے منافی نام استغاثہ میں شامل ہے۔ درخواست گزاروں نے استدعا کی کہ عدالت بری کرنے کا حکم دے۔ عدالت نے بریت کی درخواستوں پر پراسیکوٹر کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا اورسماعت 3 جون تک ملتوی کردی۔

سانحہ ماڈل ٹاون کو 8 سال ہونے والے ہیں سانخہ کے دوران پولیس کی گولیوں کا نشانہ بننے والے اج بھی انصاف کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور، نہ تو گولیوں چلانے والوں کو سزا ہوئی اور نہ ہی گولی چلانے کا حکم جاری کرنے والے قانون کی گرفت میں آئے۔

سترہ جون دو ہزار چودہ لاہور کی تاریخ کا ایسا سیاہ دن تاریخ میں لکھا جا چکا ہے، اسی روز پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے منہاج القران مدرسہ اور ڈاکٹر طاہر قادری کی رہائش گاہ پر پولیس کی جانب سے دھاوا بولا گیا، اسی دوران خواتین سمیت دس افراد پولیس کی گولیوں سے اپنی جانیں کھو گئے جبکہ سو سے ذائد افراد گولیوں سے شدید زخمی ہوئے۔

ان 8 سالوں کے دوران ہر دور حکومت میں سانحہ ماڈل ٹاون کے زمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی باتیں ہوئیں لیکن ہوا کیا،نہ کوئی مجرم ٹھہرا اور نہ ہی کسی پر زمہ داری عائد کی جا سکی، عدالت میں ابھی بھی ان ایک سو اکیس پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف کیس جاری ہے۔ اس واقعہ میں ملوث تمام بڑے افسرا اج بھی بڑے عہدوں پر ترقیاں پانے کے ساتھ ساتھ پرکشش سیٹوں پر تعینات ہیں لیکن جن افراد نے اس سانحہ میں جانیں دیں ان کی لواحقین کے دلوں پر زخم اج بھی تازہ ہیں۔

17جون 2014ء کی صبح 2 بجے پنجاب پولیس نے لاہورکے مضافاتی علاقے ماڈل ٹاؤن میں واقع ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی سیکرٹریٹ کے باہرموجود رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے ایک آپریشن کا آغازکیا۔ پولیس کی ایک بھاری نفری پاکستان عوامی تحریک کے صدر مقام پہنچی، جہاں انہوں نے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان سے رکاوٹیں ہٹانے کو کہا جو ان کے حساب سے غیر قانونی تھیں۔ یہ چھاپہ پولیس کے ان صبح کے معمول کے چھاپوں کے برعکس تھا جن کا انعقاد پولیس اس طرح کے معاملات میں کرتی ہے۔

8 پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کا موقف تھا کہ یہ رکاوٹیں قانونی ہیں اور یہ چار سال قبل اس وقت ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور دفاتر کے گرد لگائی گئیں تھی،جب انہوں نے دہشت گرد طالبان گروپ کے خلاف فتویٰ دیا تھا

Comments are closed.