بشریٰ بی بی پاگل خانے کیوں گئی؟ کم عقل وزیروں کا عوام سے انتقام شروع

0
32

بشریٰ بی بی پاگل خانے کیوں گئی؟ کم عقل وزیروں کا عوام سے انتقام شروع

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ تاریخ کی مہنگی ترین ، بجلی ، گیس ، پیٹرول ، آٹا ، چینی دینے کی حکومتی کارکردگی اپنی جگہ ۔ پر اس پر ڈھٹائی سے یہ کہنا کہ پاکستان میں تیل کی قیمتیں خطے میں اب بھی سب سے کم ہیں۔ پتہ نہیں کہاں سے یہ اعداد وشمار نکال کر لاتے ہیں ۔ ان کو شرم نہیں آتی ۔ روز ٹی وی پر آکر جھوٹ بولتے ہیں ۔ بدمعاشیاں کرتے ہیں ۔ کم از کم یہ عوام کو دلاسہ نہیں دے سکتے تو ان کے زخموں پر نمک تو نہ چھڑکیں ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ یہ جو وزیر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی قوتِ خرید بھارت سے بہتر ہے۔ اور اصل حکومتی کامیابی یہ ہے کہ 75 فیصد آبادی کی آمدنی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔ ملک میں مستری اور مزدور کی دیہاڑی بھی 3 گنا بڑھ گئی ہے۔ تو کاش یہ کوئی تین مزدور ہی سامنے لے آئیں جو کھل کر حکومت کی تعریف کر دیں ۔ حالت یہ ہے کہ لوگ جھولیاں بھر بھر ان کوبدعائیں دے رہے ہیں اور یہ ہم کو کہانیاں سنا رہے ہیں۔ کسی کی گڈی چڑھی ہے تو صرف آٹا ، چینی اور دوائی مافیا کی چڑھی ہے ۔ دن بدلے ہیں تو وزیروں کے بدلے ہیں ۔ موجیں لگی ہوئیں ہیں تو عثمان بزدار کی لگی ہوئی ہیں ۔ یہ وہ ہی وزیر اعظم ہیں جو کہا کرتے تھے پروٹوکول نہیں لوں گا ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ خاتون اول بشری بی بی پاگل خانے کے دورے پر گئیں ۔ پروٹوکول گاڑیاں آپ خود گن لیں ۔ آپکو ان سے پہلے والے حکمران مسیحا لگنے لگ جائیں گے ۔ وزیروں مشیروں کے گھر اور ان کے اللے تللے تو اس بیچاری دکھیاری قوم کے ٹیکس کے پیسوں سے پورے ہوجاتے ہیں ۔ ان کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ فرق پڑتا ہے اس بدقسمت ملک کی غریب عوام کو جن کے دکھ ، درد اور تکلیفیں سننے والا کوئی نہیں ۔ ۔ اس وقت ایک پاکستانی ایک لاکھ 60 ہزار روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ تو حکومت اپنے دوست سرمایہ داروں کو رعایت اور مراعات دے رہی ہے۔ جہاں حکومت لوگوں کوملازمتوں سے فارغ کرنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ تو اپنے وزیروں اور مشیروں کی فوج میں روز بروز اضافہ ہی کرتی جا رہی ہے ۔ اور ہم جب یہ حقائق بتاتے ہیں آئینہ ان کو دیکھاتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ وزیراعظم نے ورلڈ کپ جیتا تھا ۔ وزیر اعظم نے شوکت خانم بنایا ۔ وزیر اعظم نے نمل یونیورسٹی بنائی ۔ وزیر اعظم باہر سے پڑھ کر آیا ہے ۔ پرمیں بتا دوں اس قوم کو اب مزید ماموں نہیں بنایا جاسکتا ۔ عوام اس سونامی اور تبدیلی سے بیزار ہوچکی ہے ۔ کیونکہ لوگوں کو معلوم ہوچکا ہے کہ نہ تو وزیراعظم اپنی کہی کسی بات پر قائم رہا ہے نہ ہی اس نے کوئی کارکردگی دیکھائی ہے ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ یہ مغربی معاشروں کی جمہوریت کا راگ تو بڑا الپاتے ہیں پر پتہ ان کو ٹکے کا نہیں ہے ۔ پارلیمنٹ تو ان سے ٹھیک چل نہیں رہی ہے ۔ صرف اگر پارلیمانی سطح پر حکومتی چیلنجز کا احاطہ کیا جائے تو عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے آنے والے سالوں میں کافی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس وقت حکومت کے سامنے ایک لمبا چوڑا اصلاحاتی ایجنڈا موجود ہے جس کو وہ آنے والے سال میں مکمل کرنا چاہتی ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہو گی۔ اور قانون سازی کے لیے دونوں ایوانوں میں اکثریت کا ہونا ضروری ہے جو کہ حکومت کے پاس موجود نہیں۔ پھر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کسی بھی لیول پر کوئی ورکنگ ریلیشن شپ قائم نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ ویسے تو سیاست میں سب کچھ ممکن ہوتا ہے لیکن پی ٹی آئی کے اندر یہ ایک متفقہ رائے پائی جاتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کسی بھی صورت میں شہباز شریف ہوں یا پھر آصف علی زرداری، ملاقات تو دور کی بات وہ ان سے کبھی رسمی طور پر ہاتھ بھی نہیں ملائیں گے۔ جیسا کہ حکومت ای ووٹنگ اور بیرون ممالک میں موجود پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے حوالے سے قوانین اب پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے پاس کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ الیکشن کمیشن میں دو ممبران کی تعیناتی کا معاملہ بھی اب پارلیمان کی ایک مشترکہ کمیٹی کے سامنے آنا ہے۔ کیونکہ وزیراعظم عمران خان کے تجویز کردہ ناموں کو اپوزیشن رد کر چکی ہے۔ لہٰذا اب یہ معاملہ بھی پارلیمان کے ذریعے ہی حل ہو گا۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہملک پر ایسی ووٹنگ مشینری مسلط کی جا رہی ہے جس کی دنیا کے دیگر ممالک اور الیکشن کمیشن نے مخالفت کی ہے۔ قریب کی مثال دیے دیتا ہوں ۔ بھارت میں بھی ای وی ایم استعمال ہوچکی ہے پر وہاں اپوزیشن کے حامی جس بھی پارٹی کو ووٹ ڈالتے۔ مشین سے بی جے پی کا ووٹ ہی نکلتا اس لیے یہ مشین قابل اعتماد نہیں۔ اس کا سافٹ ویئر آسانی سے تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس حکومت کی اعلی کارکردگی یہ ہے کہ اس نے ادروں کو بھی آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ نادرا نے آئی ووٹنگ کے لیے الیکشن کمیشن کے ساتھ 2.4
ارب روپے کے معاہدے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔س حوالے سے نادرا کی جانب سے الیکشن کمیشن کو خط لکھا گیا ۔ پر الیکشن کمیشن کی جانب سے چیئرمین نادرا کو لکھے گئے جوابی خط میں کہا گیا کہ نادرا پہلے بتائے اس نے آئی ووٹنگ کا سابق منصوبہ کیوں چھوڑا؟ آئی ووٹنگ کے سابق منصوبے پر 6 کروڑ 65 لاکھ روپے خرچ ہو چکے تھے۔ جوابی خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر چھوڑے گئے نظام میں کوئی خامیاں تھیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ پھر اکتوبر میں چیئرمین نیب کی مدت ملازمت بھی ختم ہو رہی ہے۔ آئین کے مطابق وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنا ہے ۔ مطلب نئے چیئرمین کاتقرر کرناہے۔ لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ اطلاعات ہیں کہ حکومت آرڈیننس کے ذریعے موجودہ چیئرمین کو مزید چار سال دینا چاہتی ہے۔ حالانکہ موجودہ چیئرمین نیب کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان ہے ۔ دھیلے کا پیسہ انھوں نے ریکور نہیں کیا سارا زور پلی بارگین پر ہی رہا ہے ۔ یعنی الٹا چوروں اور ڈاکووں کو کلین چیٹ دی گئی ہے ۔ حکومت میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے ایک بااختیار اتھارٹی بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جس کو فی الحال تمام میڈیا کی تنظیمیں کلی طور پر رد کر چکی ہیں۔ اب یہ کام بھی پارلیمان کے ذریعے ہی ہو گا۔ لہٰذا اب یہ درد سر حکومت کا ہے کہ وہ کیسے قانون سازی کرتی ہے۔ کیونکہ جو مدد حکومت کو حاصل رہا کرتی تھی اب محسوس یہ ہوتا ہے وہ شفقت کا ہاتھ حکومت کے سر سے ہٹ چکا ہے ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں ایک اچھی خاصی تعداد میں آزاد امیدواروں کا کامیاب ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حکومت کی کارکردگی کیا ہے ۔ پھر تحریک انصاف نے اپنے تین سالہ دورِ اقتدار میں ہر وہ کام کیا ہے۔ جس کے خلاف اپوزیشن میں رہ کر وہ جدوجہد کرتی رہی۔ ایک زمانہ تھا کپتان بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی بنیاد کہا کرتے تھے۔ اب تین سال ہو گئے ہیں ۔ تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریزاں ہے۔ سپریم کورٹ پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو بحال کر چکی ہے۔ مگر حکومت نے انہیں بحال نہیں کیا اور نہ ہی نئے انتخابات کرائے۔ اب الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے وہ بلدیاتی انتخابات کے بارے میں حکم جاری کر رہا ہے۔ صوبائی حکومتوں کو اس پر عملدرآمد کرنا ہو گا۔ صاف لگ رہا ہے حکومت بلدیاتی نظام کا رسک نہیں لینا چاہتی،کیونکہ اس میں مسلم لیگ (ن) خاص طور پر پنجاب میں اکثریت حاصل کر سکتی ہے،جو حکومت کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ ۔ دوسری طرف بلدیاتی ادارے مسلم لیگی سیاست کا گڑھ بن سکتے ہیں۔ جو 2023ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کو ایک بڑی شکست سے دوچار کر سکتے ہیں۔ آپ دیکھیں عمران خان اپوزیشن لیڈر کے طور پر خود کہتے تھے۔ ارکانِ اسمبلی کو ترقیاتی کاموں کے نام پر گرانٹ دینا ایک کرپشن ہے۔ کیونکہ ترقیاتی کام کرانا بلدیاتی نمائندوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پر عمران خان نے جہاں اور بہت سے یوٹرن لئے ہیں وہاں یہ یوٹرن بھی لے چکے ہیں۔ ترقیاتی فنڈز بھی ارکان کو دے رہے ہیں اور بلدیاتی ادارے بھی بحال نہیں کر رہے۔ نہ ہی نئے انتخابات کرانے پر آمادہ ہیں۔ میری نظر میں بلدیاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے گڈ گورننس بھی کہیں نظر نہیں آتی۔ کیونکہ جو کام بلدیاتی ادارے کرتے ہیں۔ وہ بیورو کریسی کر ہی نہیں سکتی۔ بیورو کریسی تو مسائل پیدا کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ حل کرنے کے لئے نہیں۔ پھر وزیراعظم عمران خان ہر دوسرے دن کسی نہ کسی شہر کا دورہ کرتے ہیں اور اپنے کھلاڑیوں کو نئے نئے ہدف دے دیتے ہیں ۔ حالیہ لاہور کے دورے پر ایسا ہی کیا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سیاسی اور انتظامی ٹیم نے پرانے اہداف حاصل کر لیے ہیں ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے فلاسفر ہر مسئلے کو ماضی کی حکومتوں پر ڈال کر نکلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ہر خبر کو جھوٹی خبروں کے بیانیے میں دبا کر متنازع بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اپنی ناکامیوں کو "مافیاز” کے سر ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تین سال گذر چکے ہیں اور حکومت ایک بھی ایسا کارنامہ سرانجام نہیں دے سکی جس کی بنیاد پر وہ الیکشن میں جا کر ووٹ مانگ سکیں ۔ پھر حکومتی فیصلے ایسے ہیں کہ جن سے عام آدمی کو کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ حکومتوں کا سب سے بڑا ہدف شہریوں کی بہتر زندگی ہونا چاہیے۔

Leave a reply