سانحہ ، بائی پاس ڈی جی خان تحریر: محمد ابراہیم

اکرم نے اسلم سےکہا کہ بھائی ماں کے لیےاس عید پر دو سوٹ لیتے ہیں۔ امجد نے بھی ان سے اتفاق کیا۔ لیکن تینوں تھوڑی دیر تک خاموش ہو گئے۔ پھر اسلم نے کہ ہم ایسا کرتے ہیں کہ ابو جان کے لیے بھی دو سوٹ لیتے ہیں۔ سب نے اتفاق کیا۔ تھوڑے توقف کے بعد امجد بولا ، اپنی تین بہنیں کیا سوچیں گی؟ ان کے لیے بھی دو دو سوٹ لیتے ہیں۔

سب نے اتفاق کیا۔ ماں اور بہنوں کے لیے چوڑیاں بھی خریدنی ہیں۔ سب نے اتفاق کیا۔ جوتے بھی خریدے گئے۔ لیکن جب حساب ہونے لگا تو قربانی اورکرائے کا خرچہ نکال کر ان کے پاس اپنے سوٹوں کی رقم نا ہونے کے برابر تھی۔ تینوں نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنے لیے لنڈے کے دو دو سوٹ لے لیتے ہیں۔ اس کو صحیح دھلوا کر استری کر لیں گے اور یوں ہم اپنوں کے لیے سب چیزیں اچھی والی خرید سکیں گے۔ تینوں بھائیوں نے اتفاق کیا۔ عید سے دو دن پہلے یہ سب چیزیں شاپنگز کر کے ایک بیگ میں رکھ لی گئی۔ ان میں سے ایک کی شادی بھی ہونے والی تھی۔ گھر میں ان تینوں بھائیوں کا بڑی بے صبری سے انتظارہو رہا تھا۔ تینوں بہنوں کی بے چینی انتہاء پر تھی کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ ان کے تین ویر 6 ماہ بعد گھر آ رہے ہیں تو ان کے لیے بہت کچھ لائیں گے۔ ابو نے ان تینوں سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ

سیالکوٹ سے راجن پور براستہ ڈیرہ غازی خان بس آ رہی ہے ہم کل بیٹھ جائیں گے۔ پھر اگلے دن وہ روانہ ہوئے۔ تینوں بہنیں ہر گھنٹہ بعد اپنے ابو سے کہتیں کہ رابطہ کریں کہ وہ کہاں پہنچ گئے ہیں۔ رات بارہ بجے تک انھوں نے رابطہ رکھا۔ پھر کچھ دیر کے لیے نیند آ گئی۔ صبح کی نماز کے وقت جلدی بیدار ہوئیں۔ ابو سے کہا کہ رابطہ کریں۔ پتہ چلا کہ پل قمبر کراس کر لی ہے۔ انتظار بڑھتا جا رہا تھا۔ کوئی ایک گھنٹے بعد ابو کا موبائل بجنے لگا، تو تینوں بہنیں چہک کر والد کے پاس آ بیٹھیں کہ شاید ان کے بھائی قریب پہنچ گئے ہیں۔ لیکن والد صاحب بس سن رہے تھے ، کوئی جواب نہیں دے رہے تھے۔ باپ کے چہرے پر سنجیدگی بہت گہری ہوئی۔ تو تینوں بہنوں نے اپنے ابو سے کہا کہ کیا ہوا ابو، کیا ہوا ابو۔ ابو سے اور کچھ نا بولا گیا، بس یہی کہا "میں بوڑھا ہو گیا ہوں دعا کرو اللہ پاک اس امتحان میں کامیاب کرے”۔ پھر چند لمحہ بعد مزید کالز آتی رہیں۔ ایک کالز پر ابا جی گر پڑے۔ بہنوں کو معلوم ہوا کہ بس کو حادثہ ہو گیا ہے۔ ماں صدمہ سے نڈھال ہوئی۔ بہنوں نے رو رو کر اپنا حال برا کیا۔

چند گھنٹوں بعد ایمبولینس کی آواز آئی۔ سب رشتہ دار آ چکے تھے۔ تھوڑی دیر میں ان تینوں شہزادوں کی لاشوں کو الگ الگ چار پائی پر لایا گیا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ در و دیوار رو رہے تھے۔ آسمان غم میں تھا۔ ماں باپ اور بہنیں ہوش میں نا تھیں۔ وہ شاپنگ بیگ جس میں چھ ماہ کی مزدوری تھی۔ کھولا گیا تو کیا شاندار کپڑے، جوتے اور چوڑیاں تھیں۔ اپنے لیے لنڈے کے وہ سوٹ لائے تھے لیکن ماں باپ اور بہنوں کے لیے بہترین کوالٹی کی چیزیں۔ اللہ اکبر۔

یہ کہانی میرے وسیب کے بیرون شہر و ملک رہنے والے مزدور شہزادوں کی ہے۔ جو اسلام آباد،راولپنڈی سے اپنا خون پسینہ ایک کر کے پتہ نہیں کس طرح اپنوں کو خوش کرتے ہیں۔ خود کڑی دھوپ اور گرمیوں میں کام کرتے ہیں لیکن اپنوں کو ہر سکون دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود لنڈے کے کپڑے پہن کر دنیا کو اچھا دکھاتے ہیں لیکن اپنوں کے لیے اصلی کپڑے اور جوتے لاتے ہیں۔

اس سانحہ عظیم پر بھی حکومت وقت نا جاگی تو کب جاگے گی؟؟ یہ قاتل انڈس ہائی وے تونسہ روڈ کب ڈبل کرے گی؟ یہ تیز رفتاری کو کب چیک کرے گی؟ یہ رشوت دے کر لائسنس بنانے اور بنوانے والوں کو کب سخت سے سخت سزا دے گی؟ ہم کب تک اپنے وسیب کے گھروں کو اجڑتا دیکھتے رہیں گے؟
اللہ پاک شہداء سانحہ بائی پاس ڈیرہ غازی خان کے تمام افراد کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ امین

نوٹ: یہ میری تحریر سانحہ بائی پاس ڈیرہ غازی خان کے حوالے سے تخیلاتی ہے جس میں ایک گھر کے حقیقی درد کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور حکومت وقت سے چند سخت سوالات پوچھنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں فرضی نام ڈالے گئے ہیں۔.

Comments are closed.