"چھلاوا ملزم بالمقابل آمر "تحریر: حبیب الرحمن

0
48

یہ واقعہ ضیاء الحق مرحوم کے دور اقتدار کا ہے اس میں کچھ شخصیات کے فرضی نام بوجہ لکھوں گا۔ تاکہ کسی کی بھی تحقیر نہ ہو۔
ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ایک شخصیت (فرضی نام بابر خان) نے گولڑہ شریف میں وہاں کی مقامی مذہبی شخصیت کے ساتھ بھی بڑا تنازعہ بناۓ رکھا۔ بعد ازاں ایک دلچسپ واقعے کا اہم ملزم بھی تھا۔ اس دور میں راولپنڈی صدر میں ایک تکہ شاپ تھی جہاں امیر ترین شخصیات کھانا کھانے جاتی تھیں۔ ایک دن اس تکہ شاپ کا مالک شاپ کو بند کر کے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا تو خیابان سر سید کے علاقے میں ویران سڑک پر ایک انتہائی خوبرو لڑکی کو کھڑا پایا۔ جو بے چینی سے ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی گاڑی کو دیکھتے ہی اس نے گاڑی سے لفٹ لینے کے لیے اشارہ کیا۔ شاپ کے مالک نے گاڑی روکی تو لڑکی نے بتایا کہ اسکی گاڑی خراب ہو گئی ہے۔ اور وہ بہت پریشان ہے۔ سو شاپ کے مالک نے اس لڑکی کو بٹھا لیا۔ راستے میں گپ شپ کے دوران معلوم ہوا کہ موصوفہ شوبز کا حصہ ہیں۔ جب لڑکی اپنے گھر کے پاس پہنچی تو شاپ مالک کو انتہائی محبت سے کافی پینے کی دعوت دی جسے شاپ مالک نے قبول کر لیا۔گھر کے اندر پہنچنے کے بعد لڑکی نے مخصوص حرکات و سکنات شروع کر دیں۔ بہرحال لڑکی کی دعوت گناہ کو شاپ مالک نے قبول کر لیا لیکن شاپ مالک پر مصیبت کے پہاڑ اس وقت ٹوٹے جب دونوں کی برہنہ تصاویر لے لی گئیں۔اس کے بعد شاپ مالک کو چلتا کر دیا گیا۔ ازاں بعد ایک فون کال (یاد رہے کہ اس وقت تک پاکستان میں موبائل دستیاب نہیں تھا) پر شاپ مالک کو دس لاکھ روپے گولڑہ شریف لا کر اپنی تصاویر لینے کا کہا گیا۔ جب موصوف رقم لے کر پہنچے تو بابر خان (فرضی نام) نے رقم بھی لے لی اور شاپ مالک کو زود و کوب کر کے بھیج دیا۔ شاپ مالک کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ بالآخر ضیاء الحق مرحوم کے فرزند اعجاز الحق جو ان دنوں دوستوں کے ساتھ اس تکہ شاپ پر بیٹھتے تھے ان کے گوش گزار کیا۔

اعجاز الحق نے اپنے والد کو صورت حال بتاہی اور پولیس نے بابر خان کو گرفتار کر لیا۔ تفتیش کے بعد بابر خان کو اڈیالہ جیل منتقل کر کے اس وقت کی آرمی کورٹ کو مقدمہ بھیج دیا گیا۔ایک دن جب تکہ شاپ کا مالک دکان بند کر رہا تھا تو اچانک ایک شخص دکان میں داخل ہوا۔ اس شخص کو دیکھتے ہی شاپ مالک کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی کیونکہ یہ شخص بابر خان تھا جو قانونی طور پر اڈیالہ جیل میں تھا۔ بابر خان نے شاپ مالک کو دھمکی دی اور چلا گیا۔ تھوڑی دیر تک تو مالک کو سمجھ نہ آیا کہ کیا کرے پھر اس نے اعجاز الحق کو فون کر کے ساری صورت حال سے مطلع کیا۔ لیکن اعجاز الحق یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے کہ ایک شخص جیل سے کیسے آسکتا ہے لیکن مالک شاپ کے یقین دلانے پر اڈیالہ جیل سپرنٹینڈنٹ کو جب فون کر کے پوچھا گیا۔ تو سپرنٹینڈنٹ نے بتایا کہ ملزم تو جیل میں ہے۔ اس بات کا شاپ مالک نے بہت اثر لیا اور تقریباً مقدمے سے دست برداری اختیار کر لی۔ چونکہ پولیس کی ملی بھگت سے ملزم بابر خان سے کچھ برآمد بھی نہیں ہوا تھا سو کچھ ماہ بعد ملزم بری ہو کر گھر آ گیا۔ملزم نے پھر شاپ مالک سے چھبیس لاکھ روپے لے کر تصاویر واپس کیں۔
اس واقعے کی تصدیق بھی کی جاسکتی ہے
اگر ایک عام ملزم اس طرح کر سکتا ہے تو کرپٹ مافیا تو کسی حد تک بھی جا سکتی ہے اور حکومت منہ دیکھتی رہ جائے گی
جب تک اس کرپٹ سسٹم اور اس میں موجود کالی بھیڑوں کو اپنے انجام تک نہ پہنچایا گیا
انصاف کا خون ہوتا رہے گا

Leave a reply