
اگست 2021 میں امریکہ کی واپسی کے بعد سے، واشنگٹن نے افغانستان کے لیے 3.71 بلین ڈالر کی امداد مختص کی ہے، جس میں سے 64.2% اقوام متحدہ کے ایجنسیوں، UNAMA اور ورلڈ بینک کے ذریعے تقسیم کی گئی،
طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے، ان کی جابرانہ حکمرانی مزید سخت ہو گئی ہے، جس کا سبب ان کی حکومتی پالیسیوں اور دہشت گرد گروپوں جیسے فتنے الخوارج (فاك ٹی ٹی پی)، داعش (ISIS) اور القاعدہ کی حمایت ہے۔ طالبان کی حکمرانی نے خواتین کی تعلیم، ملازمت اور نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں، جس سے بحران مزید گہرا ہو گیا ہے۔ SIGAR نے خبردار کیا ہے کہ دہشت گرد گروہ افغانستان سے بے خوف ہو کر کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، جیسا کہ ISIS-K نے 2024 میں افغانستان، ایران، روس، پاکستان اور ترکی میں 60 حملے کیے، جو 2023 کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہیں۔
پاکستان نے 2024 میں 640 سے زیادہ (ٹی ٹی پی) حملوں کا سامنا کیا، جن میں دہشت گردی سے متعلق واقعات میں 2,500 سے زائد افرادکی موت ہوئی، جو 2023 کے مقابلے میں 66 فیصد اضافہ ہے، پاکستان کی حکومت نے طالبان کے جابرانہ دور حکومت کی جانب سے (ٹی ٹی پی) کے انتہاپسند گروپ کو خاموشی سے سپورٹ کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، جو افغان سرزمین پر بے خوف پناہ گزین ہیں۔ پاکستان نے یہ بھی ثبوت فراہم کیا ہے کہ (ٹی ٹی پی) کے جنگجو امریکی اسلحہ استعمال کر رہے ہیں، جو امریکہ کی واپسی کے بعد افغانستان میں چھوڑا گیا تھا۔
امریکی محکمہ دفاع نے اندازہ لگایا ہے کہ افغانستان میں 7 بلین ڈالر کا فوجی سامان چھوڑا گیا تھا، جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مستقبل کی امداد اس بات پر مشروط کی کہ امریکی فوجی سامان واپس کیا جائے۔ چار ملکی گروپ (پاکستان، چین، ایران اور روس) نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان سے دہشت گرد گروپوں کے خلاف قابل تصدیق اقدامات کریں۔ پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ اگر افغان سرزمین سے کوئی بڑا حملہ ہوا تو اس کا فوری جواب دیا جائے گا اور (ٹی ٹی پی) کے محفوظ ٹھکانوں کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی رپورٹس سے تصدیق ہوئی ہے کہ (ٹی ٹی پی) طالبان کی حکمرانی سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہا ہے، جس میں 6,000 سے 6,500 جنگجو پاکستان کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ پاکستان کی حکمت عملی سفارتی تعلقات کو مضبوط کرنے اور طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے چین اور دیگر علاقائی کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر مضبوط دفاعی اقدام پر مرکوز ہے۔ اسلام آباد اپنے اقتدار اعلیٰ اور سلامتی کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہے اور یہ بھی یقینی بناتا ہے کہ افغانستان کو دہشت گردی کا مرکز نہ بننے دیا جائے۔