’’چارلز ہتھوڑا‘‘ اور تاریخ اسلام — فرقان قریشی

0
39

اکتوبر سنہ 732ء میں ایک بہت اہم واقعہ ہوا تھا ، شاید آپ میں سے کم ہی لوگ اس واقعے کو جانتے ہوں گے لیکن ایک بدترین شخص نے تاریخ کے اس واقعے کو اچھے طریقے سے یاد رکھا ہوا تھا ۔

اور آپ کو پتہ ہے کہ اس شخص نے اس واقعے کے مرکزی کردار charles martel کا نام کہاں لکھا تھا ؟

وہ تو میں آپ کو ابھی بتا دیتا ہوں لیکن یہ وہی چارلز مارٹل ہے جسے تاریخ ’’charles the hammer‘‘ یعنی ’’چارلز ہتھوڑا‘‘ بھی کہتی ہے ، وہی چارلز مارٹل جو اپنے باپ pepin کی اپنی ایک نوکرانی کے ساتھ ناجائز اولاد تھا اور وہی چارلز مارٹل جس نے وقت کی سب سے بڑی ملٹری پاور یعنی مسلمانوں کو ناقابل شکست بیس سال گزارنے کے بعد فرانس کے جنگل میں ہرا دیا تھا اور اموی جنرل عبدالحمٰن الغوفیقی کو مار دیا تھا ۔

وہی چارلز مارٹل جس کی وجہ سے فرانس اور جرمنی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ لیکن یہ لڑائی طاقت کی لڑائی نہیں تھی ، یہ لڑائی ایکچوئلی صبر کی لڑائی تھی اور اس لڑائی کا نام تھا battle of tours ۔

چارلز مارٹل مسلم آرمی سے آدھی تعداد کے ساتھ جنگل میں تھا اور صبر سے انتظار کر رہا تھا کہ مسلمان جنگل میں آ کر لڑیں تاکہ مارٹل کو درختوں میں چھپنے کا فائدہ مل سکے اور مسلمان جنگل سے باہر انتظار کر رہے تھے کہ مارٹل باہر آ کر ہم سے لڑے تاکہ ہم اپنی تعداد اور طاقت سے اسے ہرائیں لیکن بالآخر سات دن بعد مسلمانوں کا صبر جواب دے گیا اور وہ جنگل میں داخل ہو گئے ۔ یورپ کے گھنے جنگلات جدھر آرمی کی تعداد کوئی معنے نہیں رکھتی تھی …

اور مجھے جرمن مؤرخ hans delbruck کے الفاظ یاد ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں battle of tours سے زیادہ اہم اور کوئی لڑائی نہیں ہوئی کیوں کہ اس دن اگر چارلز مارٹل ہار جاتا تو آج نہ کوئی holy roman empire ہوتی ، نہ پوپ رہتا اور نہ ہی عیسائیت کیوں کہ پھر اس وقت مسلمانوں کو پورے یورپ پر قبضہ کرنے سے روکنے والی کوئی آرمی اس دنیا نہیں تھی ۔

انفیکٹ یہ وہ واحد لڑائی تھی جس کے بارے میں ایڈولف ہٹلر نے بھی یہ بات کہی تھی کہ اگر مسلمان وہ لڑائی جیت جاتے تو آج یہ دنیا ایک مسلمان دنیا ہوتی کیوں کہ مسلمان ایک دین لے کر آ رہے تھے ، ایک ایسا دین جو جرمن مزاج کے ساتھ پرفیکٹلی فِٹ بٹھتا ہے اور جرمنز کے لیے عیسائیت سے زیادہ سوٹ ایبل ہے ۔

لیکن میں نے ابھی آپ کو یہ نہیں بتایا کہ چارلز مارٹل کا نام کس نے یاد رکھا ہوا تھا ؟

تین سال پہلے نیوزی لینڈ کے ایک شخص نے 74 صفحوں کا ایک مینی فیسٹو لکھا تھا the great replacement اور اس نے یہ مینی فیسٹو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سمیت 30 میڈیا ہاؤسز کو ای میل کیا تھا ، اور ای میل کے بعد اس شخص نے نیوزی لینڈ کرائیسٹ چرچ کی ایک مسجد میں داخل ہو کر 51 نمازیوں کو شہید کر دیا تھا …

اور اس قتل عام کو کرنے والی بندوق کی نلی پر اس زندیق نے … چارلز مارٹل کا نام لکھا ہوا تھا ، وہی چارلز مارٹل جس نے مسلمانوں کو شاید سب سے گہری چوٹ پہنچائی تھی ۔

لیکن میں آپ کو یہ سب کیوں بتا رہا ہوں ؟

اس دنیا میں کوئی بڑا واقعہ randomly نہیں ہو رہا ، یا تو وہ ماضی کے کسی بڑے واقعے سے جڑا ہوتا ہے یا پھر مستقبل کے کسی بڑے واقعے کا پیش خیمہ ہوتا ہے ۔

اور میں آپ کو urge کرتا ہوں کہ تاریخ کو بھولیں مت ، ماضی کے واقعات کو یاد رکھیں ، تاکہ مستقبل کے لیے خود کو اور اپنی نسلوں کو تیار رکھ سکیں ۔

Leave a reply