چین اور پاکستان کا تاریخی معاہدہ ہو گیا، دشمن کو آگ لگ گئی، نئے حملے کی تیاریاں شروع

0
34
چین-اور-پاکستان-کا-تاریخی-معاہدہ-ہو-گیا،-دشمن-کو-آگ-لگ-گئی،-نئے-حملے-کی-تیاریاں-شروع.jp- #Baaghi

چین اور پاکستان کا تاریخی معاہدہ ہو گیا، دشمن کو آگ لگ گئی، نئے حملے کی تیاریاں شروع
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ کیا کابل دھماکے میں بھارت ملوث ہے۔فرانس امریکہ اور اسٹریلیا سے بہت ناراض ہے اور سفیر واپس بلانے کے باوجود غصہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا۔ اب فرانس کیا کرنے جا رہا ہے۔ جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے حیران کن معلومات لیک ہوئی ہیں کہ وہ چین پر ایٹمی حملہ سمیت کیا کچھ کر سکتے تھے اس پر بھی روشنی ڈالیں گے ہم آپ کو ایک عرصے سے بتا رہے ہیں کہ دنیا بدل رہی ہے، دوست دشمن اور دشمن دوست بن رہے ہیں، امریکہ اور یورپ نے اپنا دشمن ڈونڈھ لیا ہے جبکہ یہ اآپس میں بھی کسمکش میں مبتلا ہیں۔ دنیا کی توجہ اور جنگوں کا مرکز اب مشرق وسطہ سے ہٹ کر Asia- pacific کی طرف آرہا ہے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ پہلے میں آپ کو تین خلیجی ممالک کے طاقتور ترین لوگوں کی تصویر دیکھانا چاہوں گا۔کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ اس تصویر میں درمیاں میں نیکرپہنے مشرق وسطہ کا سب سے طاقتور شخص اور سعودی عرب کا کراون پرنس محمد بن سلمان ہے۔ جبکہ اس سے بھی حیران کن بات اس کے ساتھ نیکر اور ٹی شرٹ میں کھڑا قطر کا امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی،جبکہ نیلی ٹی شرٹ میں متحدہ عرب امارات کے شہزادے اور قومی سلامتی کے مشیر شیخ طحنون بن زید النہیان ہیں۔ یہ تصویر سعودی ولی عہد کے نجی دفتر کے ڈائریکٹر بدر العساکر کی جانب سے ٹوئٹر پر شیئر کی گئی۔عربی زبان میں کی جانے والی اس ٹوئٹ میں بدر العساکر نے لکھا کہ بحیرہ احمر میں ہوئی برادرانہ و دوستانہ ملاقات نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، قطری امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی اور اماراتی قومی سلامتی کے مشیر شیخ طحنون بن زید النہیان کی قربت کی وجہ بن گئی۔ دوہزار سترہ میں میں سعودی عرب، یو اے ای، بحرین اور مصر نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کردیے تھے۔لیکن اب اتنے دوستانہ ماحول میں تین ممالک کی اہم شخصیات کی تصویریں یہ پیغام دے رہی ہیں کہ جہاں دنیا بھر میں نئی صف بندی ہو رہی ہے وہاں مشرق وسطی میں بھی اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اور یہ خطے میں امن اور ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہیں بھارت کو اپنی بڑی مارکیٹ کی وجہ سے ایک Advantageحاصل ہے جس کی وجہ سے دنیا کی بڑی طاقتیں اس کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈال رہی ہیں، لیکن آئے روز بھارت کا کوئی نہ کوئی کارنامہ منظر عام پر آجاتا ہے۔ ان ایک بڑا سوال پیدا ہو گیا ہے کہکیا بھارت کابل ائیرپورٹ پر خودکش حملےمیں ملوث ہے؟ داعش خراسان کےمیگزین ’صوت الہند‘ کےمطابق گذشتہ ماہ کابل ائیرپورٹ پر خودکش حملہ آور پانچ سال قبل بھارت میں گرفتار ہوا تھا، مگر اسے رہا کرکے افغانستان بھیج دیا گیا تھا مبصرین سوال اٹھا رہےہیں کہ کیا وہ بھارتی ایجنسی سے رابطےمیں تھا؟ جبکہ بھارت کے TTPBLAاورIsisکے ساتھ تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ بھارت انہی گروپوں کی مدد سے پاکستان میں دہشتگردی کروا رہا ہے۔ کیا امریکہ اس پر تحقیق کرے گا ۔۔ نہیں۔۔ بلکہ امریکہ اپنا سارا غصہ پاکستان پر نکالنے کی کوشش کرے گا اوراس کے لیے امریکہ میں گراونڈ بنایا جا رہا ہے۔ اخباروں کے اداریوں سے لے کر گانگریس تک پاکستان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان کو غیر معمولی سفارت کاری کی ضرورت ہے تاکہ دشمن کے حملے کو روکا جا سکے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ داعش کی 20 صفحات پر مشتمل پروپیگنڈہ میگزین کے نئے شمارے میں لکھا گیا ہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ہزاروں افغان بیورو کریٹ ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے اور اسی دوران عبد الرحمان لوگری نامی خود کش حملہ آور نے 13 امریکی فوجیوں اور ایک درجن سے زائد طالبان جنگجو سمیت 250 کے قریب لوگوں کو ہلاک کیا۔میگزین میں لکھا گیا ہے کہ ’کابل ایئر پورٹ حملے میں ملوث خود کش حملہ آور عبدالرحمان پانچ سال پہلے دہلی میں اس وقت پکڑا گیا تھا جب وہ وہاں پر کشمیر میں مظالم کا بدلہ لینے کے لیے ہندو عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ لیکن اللہ نے کچھ اور فیصلہ کیا تھا ۔ ان کو گرفتاری کے بعد قید میں رکھا گیا تھا اور پھر افغانستان ڈی پورٹ کردیا گیا جہاں پر ایئرپورٹ پر خود کش حملہ کیا۔‘وائس آف ہند میگزین کے بارے میں مختلف رپورٹس میں لکھا گیا ہے کہ ’یہ میگزین بھارت سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان کے لیے ایک انتہائی اچھی خبر ہے کہ ارجنٹینا نے پاکستان سے 12 جے ایف-17 اے بلاک تھری لڑاکا طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔۔یہ خبر اس وقت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی جب ارجنٹینا کی حکومت نے اپنی قومی پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے سال 2022 کے بجٹ میں اس مقصد کے لیے 66 کروڑ 40 لاکھ ڈالر مختص کرنے کی تجویز دی۔فنڈ مختص کرنے کی تجویز کا مطلب یہ نہیں کہ سودا طے پاگیا ہے کیوں کہ فروخت کے معاہدے پر ابھی دستخط ہونے باقی ہیں۔تاہم اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ارجنٹینا نے جے ایف-17 طیاروں کو زیر غور متعدد آپشنز پر فوقیت دی ہے۔ارجنٹینا اس خریداری پر گزشتہ سال سے غور کر رہا ہے جب برطانیہ نے اس کی دیگر ذرائع سے طیارے خریدنے کی سابقہ کوششوں کو روک دیا تھا۔2015 سے سویڈن اور جنوبی کوریا سے لڑاکا طیارے خریدنے کی کوشش کررہا تھا لیکن دونوں فروخت کنندگان برطانوی دباؤ کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے۔ارجنٹینا نے 2015 میں سویڈش جے اے ایس 39 گرپن لڑاکا طیارے حاصل کرنے کی کوشش بھی کی تھی، بعد میں اس نے جنوبی کوریائی ایف اے-50 فائٹنگ ایگل میں بھی دلچسپی دکھائی۔جے ایف-17 جیٹ طیاروں میں برطانیہ کی تیار کردہ ایجیکٹر سیٹ بھی ارجنٹینا کو طیاروں کی فروخت میں ایک تنازع بنی ہوئی ہے۔اس کے علاوہ ارجنٹینا کی فضائیہ کے لیے لڑاکا طیاروں کی تلاش میں دوسری مشکل مہنگے آپشنز کے لیے فنڈز کی کمی ہے۔خیال رہے کہ ارجنٹینا کی فضائیہ 2015 میں نمایاں طور پر ختم ہو گئی تھی جب اس نے ڈاسالٹ میراج 3 انٹرسیپٹر طیارے کے پرانے بیڑے کو ریٹائر کیا تھا جو اس وقت تک فضائیہ کی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر کام کرتا تھا۔جے ایف 17 تھنڈر ایک جدید، وزن میں ہلکا، تمام موسموں، دن، رات ملٹی رول لڑاکا طیارہ ہے جس نے مودی کی بے وقوفی اور بادلوں سے فائدہ اٹھا کر پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کرنے کی کوشش کے نتیجے میں بھارتی مگ طیارے زمین بوس کر کے دنیا بھر میں شہرت کمائی ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کے ساتھ آبدوزیں فراہم کرنے کے 50 ارب آسٹریلوی ڈالرز کا معاہدہ منسوخ ہونے کے بعد فرانس نے امریکہ اور آسٹریلیا پر جھوٹ بولنے اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگایا ہےفرانس کے وزیر خارجہ نے کہا: ’جھوٹ بولا گیا، دہرا معیار اختیار کیا گیا، اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی اور توہین کی گئی۔ ایسے نہیں چلے گا۔‘اب دو اتحادیوں کے درمیان ’سنگین بحران‘ پیدا ہو رہا ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ کا بیان فرانسیسی صدرکے حکم پر تاریخ میں پہلی دفعہ امریکہ اور آسٹریلیا سے فرانس کے سفیروں کو واپس بلانے کے ایک روز بعد سامنے آیافرانسیسی سفیروں کو واپس بلانا ایسا اقدام ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں اور اس سے معاہدے کی منسوخی پر فرانس میں پائے جانے والے غصے کا اظہار ہوتا ہے۔AUKASآکوس میں برطانیہ بھی شامل ہے۔ لیکن اس حوالے سے فرنسیسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہہم ان کی مسلسل موقع پرستی کے بارے میں جانتے ہیں۔ اس لیے وضاحت کے لیے اپنے سفیر کو واپس بلانے کی ضرورت نہیں۔‘سکیورٹی معاہدے میں لندن کے کردار کے بارے میں فرانس کے وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’سارے معاملے میں برطانیہ کی حیثیت کسی حد تک تیسرے پہیے کی ہے۔‘جب فرانس 2022 میں NATO صدارت سنبھالے گا تو یورپی یونین کی سلامتی کے حوالے سے حکمت عملی کی تیاری کو ترجیح دے گا۔جبکہ امریکہ کے مطابق ۔۔ اس دفاعی معاہدے کے ذریعے (ساؤتھ چائنہ سی) میں چینی اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش کی جائے گی

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ چین پر ایٹمی حملہ کر سکتے تھے۔؟ ڈونلڈ ٹرمپ کی مدت صدارت ختم ہونے کے تقریباً آٹھ ماہ بعد کئی کتابیں سامنے آ چکی ہیں جن میں وائٹ ہاؤس میں سابق رپبلکن صدر کے چار ہنگامہ خیز سالوں کے اختتام کے بارے میں ڈرامائی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جن میں سے چند ایک کا میں ذکر کر دیتا ہوں۔وائٹ ہاؤس کی ایک میٹنگ کے دوران صدر ٹرمپ نے مبینہ طور پر کہا کہ ان کی بیٹی ایوانکا کے شوہر اور وائٹ ہاؤس کے سینئر مشیر جیرڈ کشنر امریکہ سے زیادہ اسرائیل کے وفادار ہیں اپنے دور صدارت کے اختتام کے قریب اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے لیے صدر ٹرمپ کا رویہ اس قدر تشویش ناک ہو گیا تھا کہ انہوں نے سوال کرنا شروع کر دیا کہ کیا 2020 کے انتخابات ہارنے کے بعد ٹرمپ کا ذہنی استحکام اس قدر انتشار کا شکار ہو جائے گا کہ وہ ملک کو جنگ میں دھکیل دیں گے۔ایوان کی سپیکر نینسی پیلوسی ٹرمپ کے حامیوں کے کیپیٹل ہل پر حملے سے اس قدر ناراض ہوئیں کہ انہوں نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملے سے کہا کہ وہ صدر کو بغاوت کی کوشش کے الزام میں گرفتار کیا جانا چاہیے۔اور جنرل مارک ملے خود اس بات سے بہت پریشان تھے کہ صدر ٹرمپ کی حرکتیں غیر ملکی حریف کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ امریکی فوج کے سربراہ کو بالآخر اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ بیک چینل کالز کا سلسلہ شروع پڑا تاکہ انہیں یقین دلایا جا سکے کہ امریکی حکومت مستحکم ہے اور صدر ٹرمپ بیجنگ پر حملہ نہیں کریں گے۔جنرل مارک ملے پریشان ہو گئے کہ صدر ٹرمپ’ بدمعاشی پراتر‘ جائیں گے اور 20 جنوری کو عہدہ چھوڑنے سے پہلے کسی بھی وقت چین پر ایٹمی حملہ کر دیں گے۔کیپیٹل ہل پر حملے کے دو دن بعد جنرل ملے نے نیشنل ملٹری کمانڈ سینٹر کے انچارج سینئر افسران کا ایک اجلاس بلایا تاکہ فوجی کارروائی شروع کرنے کے رسمی عمل کا جائزہ لیا جائے جس میں ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال بھی شامل تھا۔جنرل ملے نے افسران کو بتایا کہ وہ کسی بھی ایسے احکامات کو نظر انداز کر دیں جن میں ان کو بائے پاس کیا گیا ہو۔جنرل ملے نے اجلاس میں موجود ہر ایک افیسر کی آنکھوں میں دیکھنے اور ان سے زبانی تصدیق کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے۔ آپ ضابطہ کار پر عمل کریں۔ اور میں اس ضابطہ کار کا حصہ ہوں

Leave a reply