چڑیا نہیں …..شیرنی ! تحریر:ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ہم نے پانچویں کلاس سے پبلک ٹرانسپورٹ یعنی بس سے سکول جانا شروع کیا ۔شروع میں آپا ساتھ ہوتیں کہ ان کا کالج سکول کے ساتھ ہی تھا لیکن ان کا بی اے ختم ہوگیا تو ہم اور ہماری چھوٹی بہن ۔
بس میں بہت رش ہوتا ، بیٹھنے کو جگہ نہ ملتی اور ہم عورتوں کے بیچ سینڈوچ بن کر کھڑے ہوتے ۔اچھت پہ لگے ڈنڈے کو تو ہمارا ہاتھ نہ پہنچتا سو ہم کسی نہ کسی سیٹ کو تھام لیتے ۔
عام طور پہ سواریاں بس جس طرف کو چل رہی ہوتی ، اسی طرف منہ کر کے کھڑی ہوتیں ۔ایک بار ایسا ہی رش تھا اور ہم سیٹ کو تھامے کچھ یوں کھڑے تھے کہ ہمارا منہ دوسری سمت میں تھا ۔ ہمارے بالکل سامنے ایک عورت ، کالے برقعے میں ملبوس ، ایک ہاتھ سے سائیڈ پر لٹکا ہوا بچہ اور دوسرے ہاتھ سے بس کا ڈنڈا تھامے ہوئے ۔
ہمارا قد اتنا تھا کہ بمشکل عورت کی چھاتی تک پہنچتا تھا۔ ہم اپنے خیالوں میں گم کہ ہم نے عورت کو کسمساتے محسوس کیا ۔ سر اٹھا کر دیکھا تو ایک مردانہ ہاتھ عورت کی چھاتی پہ ۔ عورت بار بار کسمساتی ، ایک لحظے کو ہاتھ پیچھے جاتا ، مگر دوسرے ہی سیکنڈ دوبارہ سے چھاتی پہ مصروف عمل ہو جاتا ۔
ہم نے عورت کی سائیڈ سے منہ نکال کر پیچھے دیکھنے کی کوشش کی کہ یہ آخر چکر کیا ہے ؟
عورت کے بالکل پیچھے ایک کریہہ الصورت شخص کھڑا تھا جو یہ کھیل کھیلنے میں مصروف تھا ۔
سوچئیے گیارہ بارہ برس کی لڑکی نے کیا کیا ہو گا ؟
ترکیبیں سوچنے میں ماہر تو تھے ہم سو بستے میں سے پرکار نکالی اور تیار ہو گئے ۔
اب ہاتھ جونہی آگے آیا اور چھاتی پکڑی ، ہم نے پوری قوت سے پرکار کی نوک اس ہاتھ میں گھسا دی ۔ بجلی کی سی تیزی سے ہاتھ واپس گیا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔
گھر پہنچنے پہ آپا کو اپنا کارنامہ سنایا ، آپا ہنسیں تو سہی مگر کچھ خوفزدہ بھی ہوئیں … اگر وہ مرد تمہیں پکڑ کر مارتا تو ؟
ایسے ہی … اتنا شور مچاتے کہ دنیا اکھٹی کر لیتے ۔
یہ واقعہ یوں یاد آیا کہ کل کسی نے کمنٹ لکھا کہ کمپنی ھذا کیا کرسکتی ہے ؟
سو بہنو اور بھائیو ، تھوڑی سی ہمت ، تھوڑی سی عقل اور تھوڑا سا اعتماد آپ کی بیٹی کو ایساانگارہ بنا سکتا ہے جو دوسروں کو جلا کر راکھ کر دے ۔
چڑیا نہیں بننے کا …… شیرنی بنو شیرنی !