چولستان، بین الاقوامی ثقافتی میلہ اور 20ویں جیپ ریلی
تحریر: ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی
چولستان جیپ ریلی کا آغاز 2005 ء میں ہوا جو کہ اب ایک بین الاقوامی سطح کی سرگرمی بن چکی ہے، جس میں نامور ملکی و غیرملکی مرد ڈرائیورز کے ساتھ ساتھ اب خواتین ڈرائیورز بھی حصہ لیتی ہیں۔
سرائیکی خطہ ہزاروں سال سے قدیم تہذیب وتمدن اور ثقافت کا مرکز بنتا آرہا ہے۔روہی چولستان اور سرائیکی وسیب جسم و روح کی مانند ہیں۔سابق سرائیکی ریاست موجودہ ڈویژن بہاولپور دنیا میں لینگؤیج ،لٹریچر،آرٹ،کلچر اور ایگری کلچر میں ایک منفرد اعزاز رکھتا ہے۔چولستان کا دل روایتی فنون لطیفہ کی علامت قلعہ ڈیراور کے مقام پر 20ویں انٹرنیشنل جیپ ریلی کا آغاز 12فروری تا 16 فروری 2025ء درحقیقت خوشحالی اور تعمیر نو کے نئے سفر کی نوید ہے۔قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے فرمایا "سِیْرُوا فِی الْأَرْضِ” (سَیْرُوا فِی الْأَرْضِ)جس کا مطلب ہے "زمین میں چل پھر کر دیکھو” یا "زمین میں سیر کرو” ۔ یہ آیت قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر آئی ہے، جیسے کہ سورۂ نمل (27:69)،سورۂ عنکبوت (29:20)، سورۂ محمد (47:10) اس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ زمین میں سیر و سیاحت کریں، تاریخ سے سبق سیکھیں،پچھلی قوموں کے انجام پر غور کریں اور اللہ کی نشانیوں کو دیکھیں تاکہ ان کے ایمان میں اضافہ ہو۔
زمین کی سیر سے رزق ملتا ہے۔صدیوں سے انسان روٹی روزی اور قتل وغارت کے خوف سے ایک خطے سے دوسرے خطے تک ہجرت کرتا رہا ہے۔کل کی ہجرت آج موجودہ عہد میں سیرو سیاحت نے تجارت کو فروغ دیا۔اس دوران انسان نے مختلف علاقوں کی تہذیب و تمدن،لباس ،ثقافت،زبانیں، رسوم و رواج، ادب، فنون کو سیکھا اور آپنی نئی نسل تک منتقل کیا۔اب دنیا میں سیر و ساحت باقاعدہ ایک ثقافتی ،سماجی، معاشی خوشحالی کا ذریعہ بن چکی ہے۔خوبصورت پہاڑ، دریا،جنگل،سمندر،میدان اور صحراء قدرتی مناظر مالی وسائل کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔سات سےآٹھ ہزار سال قدیم تاریخی شہر گنویری والا چولستان سرائیکی وسیب کی تمدنی عظمت کی گواہی دراصل پوری دنیا کے لیے انسانی امن ومحبت پیغام اور مشترکہ تہذیبی ورثے کا گہوارہ ہے۔قدیم آثارقدیمہ ریسرچ ورک کے مطابق وادی ہاکڑہ سرسوتی تہذیب وتمدن،جس کو میں وادی سرائیکی تہذیب وتمدن مانتا ہوں۔کیونکہ حرف س سے سرسوتی،سرسوتی سے سرائیکی،سرائیکی زبان میں حرف س سے لفظ سنا، سنا کا مطلب پانی ہے۔پانی انسان، حیوان، نباتات و جمادات کی زندگی کی رونق ہے۔
سرائیکی لفظ سنا سے سندھ بنا ہے۔پھر اس دریا کی نسبت سے وادی سندھ تہذیب وتمدن کی بنیاد بنی۔جس کی ماں وادی ہاکڑہ سرسوتی تہذیب وتمدن روہی چولستان ہے۔آج بھی دریائے سندھ کو پاکستان میں ابا سین کہا جاتا ہے۔دراصل یہ لفظ اباسئیں ہے۔سب کا باپ۔اس پر ہزاروں صدیوں پرانا سرائیکی آکھان جیئں نہ ڈٹھا ملتان نہ او ھندو نہ او مسلمان۔اردو ضرب المثل”آگرہ اگر دلی مگر ملتان سب کا پدر، سرائیکی دھرتی کی عظمت کا اعتراف ہے۔آج بھی سندھ میں سرائیکی زبان کو فوقیت حاصل ہے۔یونانی حملہ آوروں کی زبان میں حرف "س” کی جگہ "ا” الف یا "ہ” بولا جاتا ہے، جیسے سندھ سے "ہند” یا "اند” ہے۔لفظ سندھستان سے ہندوستان ہوگیا۔جس طرح سندھی زبان کے حروف تہجی میں ں نون غنہ کو لکھنے میں ن لکھا جاتا ہے۔پھر اباسئیں سے اباسین ہوگیا۔آج ہمارے پیارے ملک پاکستان میں سب سے میٹھی اور مرکزی زبان سرائیکی ہی ہے۔جو پاکستان کے ہر صوبے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔دریائے سرسوتی ندی کی بندرگاہ پتن منارہ صحراء چولستان میں موجود ہے۔قرآن مجید میں اصحاب الرس سے مراد بھی چولستان گنویری والا قدیم ترین شہر کی طرف گواہی ہے۔
کل سے صحراء چولستان میں ثقافتی میلہ اور سپورٹس ایونٹ اہم مرحلہ جیپ ریلی کا آغاز ہوگا۔چولستان جیپ ریلی پاکستان کی ایک مشہور آٹو ریس ہے۔اس کی شروعات جکارتہ ڈاکار جیپ ریلی کی طرز 2005ء میں ہوا۔ اب ہر سال یہ انٹرنیشنل ایونٹ سرائیکی قلب محلوں کے شہر بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ کے سابق شاہی دارالحکومت ڈیرہ نواب صاحب سے تقریبا 50 کلو میٹر دور روہی چولستان میں منعقد ہوتا ہے۔ یہ ایونٹ نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں ایک مشہور اور دلچسپ ریلی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بین الاقوامی چولستان جیپ ریلی 2005ء سے اب تک مقامی سرائیکی وسیب کے ساتھ پاکستان سمیت عالمی شہرت یافتہ ایک اہم کلچرل ایونٹ بن چکا ہے۔خواب سے حقیقت کا یہ خوبصورت سماں جاری ہے۔جس میں دنیا بھر کے ڈرائیورز اور آٹوموبائل شوقین افراد شرکت کرتے ہیں۔اس کا پاکستان کے خوبصورت تصوف علاقے سرائیکی وسیب کے ورلڈ چولستانی صحرائی ماحول میں منعقد ہونا مقامی سطح پر روزگار فراہمی کا بہترین ذریعہ ہے۔اس ایونٹ کا مقصد نہ صرف آٹو ریسنگ کو فروغ دینا ہے بلکہ چولستان کی قدیم تہذیب وتمدن،ثقافت،تاریخ اور قدرتی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے لانا بھی ہے۔چولستان کے علاقے کی دلکش صحرا، روایتی دیہاتی زندگی اور تاریخی مقامات اس ایونٹ کو منفرد بناتے ہیں۔
چولستان جیپ ریلی کا روٹ سخت اور چیلنجنگ ہوتا ہے۔جس میں ریت کے ٹیلے، پتھریلی زمین اور تیز ہوا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایونٹ ڈرائیورز کے لیے اپنی مہارت، تجربے اور قوت ارادی کا امتحان ہوتا ہے۔ ریلی کے دوران ڈرائیورز کو مختلف مشکل راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جن میں ریت کی چٹانیں،ٹیلے،دریائےسرسوتی کے خشک گمشدہ صحرائی راستے شامل ہیں۔ ریلی کے دوران مقامی ثقافت کی نمائش بھی کی جاتی ہے۔سرائیکی لوک موسیقی،مشاعرہ، جھومر،روایتی لباس اور کھانوں کے سٹال بھی سجائے جاتے ہیں۔ یہ ایونٹ ایک موقع ہوتا ہے جہاں لوگ نہ صرف سپورٹس کا لطف اٹھاتے ہیں بلکہ مقامی ثقافت سے بھی روشناس ہوتے ہیں۔مختلف مقابلوں میں 4×4 جیپ ریسنگ، موٹر سائیکل ریسنگ اور کلاسک کار ریسنگ شامل ہیں۔ یہ مقابلے مختلف سطحوں پر ہوتے ہیں تاکہ ہر قسم کے شرکاء کی شرکت ممکن ہو۔اس موقع پر دنیا بھر سے سیر و سیاحت کے شوقین اور کلچرل ایکسپرٹ بھی ورلڈ ہیرٹیج قلعوں سمیت دیگر تاریخی مقامات کی سیر کرتے ہیں۔ورلڈ میگا ثقافتی و سپورٹس ایونٹ چولستان جیپ ریلی سے سیاحت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور ملکی وقار و زر مبادلہ میں خاطر اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ریسرچرز مقامی چولستانی اقدار اور قدرتی خوبصورتی کا تجربہ بھی کرتے ہیں۔
چولستان جیپ ریلی نہ صرف ایک سپورٹس ایونٹ ہے بلکہ یہ پاکستان کی ثقافت،تاریخی ورثہ اور قدرتی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ہرسال اس ایونٹ کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور یہ دنیا بھر کے آٹو موبائل شوقین افراد کے لیے ایک بڑا موقع بن چکا ہے۔چولستان جیپ ریلی مقامی اور قومی سطح پر معاشی فوائد کا باعث بنتی جارہی ہے۔آرکیالوجی،ثقافتی،سماجی، تاریخی و معاشی فوائد میں آپس میں اتحاد ویکجہتی،رواداری، خلوص،فطرت شناسی جیسے عظیم جذبوں اور روزگار جیسے اقتصادی مواقعوں کو فروغ ملتا ہے۔اس سے مقامی ہوٹلوں،ریستورانوں اور دیگر سیاحتی سہولتوں کا کاروبار بڑھتا ہے۔مقامی کاروبار میں ترقی دیکھنےکو ملتی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء، سامان، اور یادگاروں کی فروخت میں اضافہ ہوتا ہے۔ملازمت کے مواقع ملتے ہیں جیسے کہ گاڑیوں اور خیمہ بستیوں کی سیکیورٹی کے مقامی لوگوں کی بھرتی ہوتی ہے۔اسی طرح زرعی ترقی میں کلیدی اضافہ ہوتا ہے۔
سیاحوں کی آمد سے چولستان کے اطراف کے کسانوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔کیونکہ ان کا مال مویشی اور زرعی مصنوعات کی فروخت میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔نیشنل و انٹرنیشنل مارکیٹنگ کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر پارٹنرشپ میں لین دین بڑھ جاتا ہے۔مقامی سطح کی ثقافت اور قدرتی حسن کو عالمی پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔ملک کی نیک نامی اور برآمدات میں اضافے سے ترقی کا پہیہ چلتا ہے۔ سرمایہ کاری کے مواقع بڑھتے ہیں۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سرائیکی خطے میں معاشی خوشحالی اور ترقی کے لیے چولستان جیپ ریلی کے مرکزی مقام قلعہ ڈیراور پر ہاکڑہ میوزیم قائم کیا جائے، سرسوتی یونیورسٹی کے قیام کو عملی شکل دی جائے اور چولستانی دستکاریوں کے فروغ کے لیے چولستان ترقیاتی ادارہ گنویری والا میں بنایا جائے۔ مستقبل میں ان مستقل اداروں کے قیام سے نہ صرف مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے بلکہ پورا سال جاری سیاحتی سرگرمیوں سے ملکی معیشت بھی مضبوط ہوگی۔ اس سے سرائیکی خطے کی ہزار سالہ ثقافت، تہذیب اور تمدن کو فروغ ملے گا اور ملک کو بے شمار معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔سرائیکی قومی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کا کلام روہی چولستان کی شادابی کی عملی دستاویزات ہیں۔
ہنڑ تھی فریدا شاد ول
ڈکھڑیں کوں نہ کر یاد ول
اجھو جھوک تھیسی آباد ول
ایہ نیں نہ واہسی ہک منڑیں ۔