چولستانی گندی: ثقافت اور کفایت شعاری کا شاہکار

چولستانی گندی: ثقافت اور کفایت شعاری کا شاہکار
ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی
altafkhandahir@gmail.com
چولستان اور سندھ کی ثقافت کا ایک نمایاں پہلو "چولستانی گندی” ہے، جو نہ صرف کفایت شعاری بلکہ خوبصورت روایتی ہنر کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ گندی، جو کپڑے کے اضافی ٹکڑوں سے بنائی جاتی ہے، نہ صرف گھریلو ضروریات کو پورا کرتی ہے بلکہ مقامی ثقافت اور روایات کی دلکش علامت بھی ہے۔ چولستانی گندی کو بنانے کا عمل ان خواتین کی ہنر مندی اور محنت کا عکاس ہے جو اپنے محدود وسائل میں بے مثال تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ گھروں میں بچ جانے والے کپڑوں کے ٹکڑوں کو بڑی مہارت سے جوڑ کر یہ گندی تیار کی جاتی ہے، جو نہ صرف خوبصورت ہوتی ہے بلکہ پائیداری کی ایک عمدہ مثال بھی پیش کرتی ہے۔
روہی چولستان کی خواتین اپنی محنت، لگن اور کفایت شعاری کی علامت ہیں۔ وہ گھروں میں استعمال شدہ اضافی کپڑوں کو ضائع کرنے کے بجائے انہیں خوبصورت شاہکار میں تبدیل کرتی ہیں۔ یہ گندیاں نہ صرف چارپائیوں پر بچھانے کے کام آتی ہیں بلکہ مہمانوں کے لیے زمین پر قالین کی جگہ استعمال کی جاتی ہیں۔ ان گندیوں کی تیاری کا عمل نہ صرف گھریلو معیشت کو مستحکم کرتا ہے بلکہ خواتین کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی نکھارتا ہے۔ شادی بیاہ اور دیگر خوشی کے مواقع پر یہ گندیاں تحفے کے طور پر دی جاتی ہیں، جو محبت، خلوص اور ثقافتی ورثے کی علامت ہوتی ہیں۔
چولستانی ثقافت کا یہ پہلو ماضی کی جھلک بھی پیش کرتا ہے، جب خاندانوں میں اتحاد اور محبت کا اظہار ان گندیوں کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ نورپور نورنگا کی پرانی یادیں اس بات کی گواہ ہیں کہ دادی اماں اور بوا اماں نئی دلہنوں اور نومولود بچوں کے لیے خوبصورت گندیاں تیار کرتیں۔ یہ عمل نہ صرف محبت اور خلوص کو فروغ دیتا تھا بلکہ خواتین کی ہنرمندی اور اتحاد کی علامت بھی تھا۔ خواتین رل مل کر دلہنوں کے جہیز میں گندیاں شامل کرتیں، جو ان کے خلوص اور کفایت شعاری کا بہترین ثبوت ہوتا تھا۔
چولستانی گندی کی اہمیت نہ صرف گھریلو زندگی تک محدود ہے بلکہ یہ مقامی معیشت کے لیے بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر حکومت وقت اس ہنر کی سرپرستی کرے اور ڈیراور قلعے جیسے مقامات پر خواتین کے لیے تربیتی ادارے قائم کرے، تو یہ نہ صرف مقامی معیشت کو مضبوط کرے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کے ثقافتی ورثے کو اجاگر کرے گا۔ اس اقدام سے مقامی خواتین کو اپنے ہنر کو بہتر بنانے اور اپنی آمدنی میں اضافے کے مواقع ملیں گے۔
سرائیکی قدرتی حسین و جمیل خوبصورت روہی چولستانی خطے کی گندی نہ صرف رنگوں سے محبت کی علامت ہے بلکہ یہ کفایت شعاری اور گھریلو معیشت کو بہتر بنانے کا ایک موثر ذریعہ بھی ہے۔ اس کے ذریعے خواتین نہ صرف اضافی کپڑوں کا بہترین استعمال کرتی ہیں بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کرتی ہیں۔ ان گندیوں کی تیاری سے خواتین کے اندر کفایت شعاری اور خود انحصاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، جو کہ ایک خوشحال معاشرے کی بنیاد ہے۔
مذہب اسلام سمیت تمام مذاہب سادہ اور آسان زندگی کو خوشحالی کا راز سمجھتے ہیں۔ چولستانی گندی اسی اصول کی عملی مثال پیش کرتی ہے۔ یہ خواتین اپنی محدود آمدنی کو بڑی حکمت اور مہارت سے استعمال کرتی ہیں اور اپنی زندگیوں کو خوشحال بناتی ہیں۔ اگر حکومت ان ہنر مند خواتین کو مراعات دے اور ان کی بنائی ہوئی مصنوعات کو عالمی منڈی تک رسائی فراہم کرے، تو نہ صرف ان کی زندگیوں میں بہتری آئے گی بلکہ پاکستان کی معیشت کو بھی فائدہ ہوگا۔
چولستانی گندی نہ صرف کفایت شعاری بلکہ ثقافتی استحکام کی بھی ایک مثال ہے۔ ہمیں اس خوبصورت ہنر پر فخر کرنا چاہیے اور اس کی ترقی کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ کفایت شعاری اور سادگی ہی کامیاب زندگی کی اصل کنجی ہیں۔ چولستان کی رنگین ثقافت اور اس کے باسیوں کی محنت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ ورثہ ہمیشہ زندہ رہے اور نئی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنے۔