چولستانی گوپے میں چھپی روہی کی دلکش ثقافت،پہلی قسط

چولستانی گوپے میں چھپی روہی کی دلکش ثقافت
تحریر: ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی
altafkhandahir@gmail.com
قسط کا خلاصہ
چولستانی ثقافت اور روہی کی خوبصورتی کو بیان کرنے والے اس آرٹیکل کی پہلی قسط میں، چولستان کے لوگوں کی زندگی، خواجہ غلام فرید اور دیگر سرائیکی شاعروں کے کلام کے ذریعے بیان کی گئی ہے۔ خواجہ فرید کی شاعری میں چولستان کی روحانی اور ثقافتی اہمیت کا ذکر کیا گیا ہے، جو عشق، تصوف، اور انسانیت کے اہم موضوعات کو بیان کرتی ہے۔ چولستان میں "گوپے” کی اہمیت پر بھی بات کی گئی ہے، جو کہ نہ صرف رہائش کے لئے بلکہ ثقافت اور قدیم روایات کی عکاسی کرتے ہیں۔ گوپے کی تعمیر میں مٹی اور درختوں کی چھال کا استعمال، اور اس کے اندر رہنے والے افراد کی محنت اور محبت کی مثال دی گئی ہے۔
پہلی قسط کا موضوع ،روہی کی دلکش ثقافت اور سرائیکی ادب
چولستان کے لوگ پانی کو زندگی کی علامت اور سب سے بڑی نعمت سمجھتے ہیں۔ روہی کے صحرا کا ہر منظر عشق حقیقی اور مجازی کی کہانی سناتا ہے، جو کلاسیکی سرائیکی ادب میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ خواجہ غلام فریدؒ نے چولستان کے ریت کے ٹیلوں اور ٹوبھوں کو اپنی شاعری کا مرکز بنایا، جہاں تصوف اور سادگی کا حسین امتزاج موجود ہے۔ان کے کلام میں عشق، تصوف، اور انسانی جذبات کی گہرائی کو ریت کے ٹیلوں کی صورت میں پیش کیا گیا۔ مثال کے طور پر:
اتھ درد منداں دے دیرے
جتھ کرڑ کنڈا بوئی ڈھیر اے
شاہد عالم شاھد لشاری کی شاعری بھی روہی کی ثقافت کو ایک منفرد انداز میں پیش کرتی ہے۔ گوپے، مٹی کی جھونپڑیوں کا ذکر، سرائیکی ثقافت کا اہم حصہ ہے۔ گوپے نہ صرف رہائش کی ضرورت پوری کرتے ہیں بلکہ چولستان کے لوگوں کی محنت اور ثقافتی خوبصورتی کی عکاسی کرتے ہیں-
پہلی قسط
پانی اور زندگی کی رونق چولستان کے لوگوں کے لیے خواب حسن کی حقیقت ہے۔روہی اگر عاشق کے لیے ایک طرف وصال بہشت ہے تو دوسری طرف وچھوڑے مونجھ ملال کی وحشت کربلا بھی ہے۔عشق مجازی سے عشق حقیقی کے سفر کا آغاز بھی چولستان روہی تھل کے ریت کے ٹیلوں سے ہوتاہے۔نگری مظہر جلال کی روحانی روہی کے کلاسک سرائیکی شاعر خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کا زیادہ تر عرصہ چولستانی ٹوبھوں اور ریت کے ٹیلوں کے ذروں کے ساتھ گزرا ہے۔سادگی،تصوف اور خالص پیلھوں جیسی خوبصورت مٹھاس ان کے کلام آفاقیت کا خاص موضوع ہے۔گوپے میں روہی کی ثقافت کا قصہ 271 کافیوں پر مشتمل سرائیکی دیوان فرید دراصل سرائیکی سماجیات کا آئینہ ہے۔
روہیلے کے لیے روہی کشمیر جنت نظیر ہے۔دھوپ کی تپش اس کے لیے برف کی طرح سفید لباس ہے۔خواجہ فرید کا خوبصورت عکس روہی دراصل سرائیکی علم وادب،عرفان وحکمت،تصوف،تہذیب وتمدن اور ثقافت کا سچا قصہ ہے۔سرائیکی مہان شاعر خواجہ فرید کو سرائیکی روحانی شاعر کا مقام حاصل ہے۔ان کے آفاقی فلسفہ میں روہی کا رنگ سب سے نمایاں ہے۔عشق حقیقی،تصوف،محبت،احساس، ہمدردی،کائنات کاحسن،احترام آدمیت،امن جیسے عظیم موضوعات ان کا حاصل کلام ہے۔
اتھ درد منداں دے دیرے
جتھ کرڑ کنڈا بوئی ڈھیر اے
لانڑے، پھوگ اساڈے مانڑے
ٹبڑے،بھٹڑے، ڈاہر، ٹکانڑے
سرائیکی زبان و ادب کے جدید کلاسک شاعر شاہد عالم شاہد لشاری نے خوبصورت انداز میں روہی روپ کے قصے کو گوپے میں بیٹھ کر شاندار لفظوں کے تخیل سے تصویر کشی کی ہے۔الفاظ کی کاری گری ملاحظہ فرمائیں۔
گوپے دیوچ اجرک ویڑھ تے ٹکڑانویں گندی تے
بڈھا پاندھی ٹوری بیٹھے رلئے مال دے قصے
مینہ دا زم زم وٹھے بلدی روہی اتے مال چردا ودے
ساولیں جم پیاں ایجھا امرت ڈھٹے مال فردا ودے
سرائیکی کلاسیکل مہان شاعر ڈاکٹر اشولال نے روہی چولستان کی چھ ہزار سال کی وادی ہاکڑہ سرسوتی تہذیب وتمدن کے مرکزی شہر گنویری والا اور قلعہ ڈیراور کی عظمت کو اپنے لازوال انداز کلام میں یوں بیان کیا ہے۔
ساڈے اندروں وگدی اے سرسوتی
ساڈے اندروں ہاکڑا وگدا اے
اے گلیاں یار ڈیراور دیاں
ساکوں ڈیکھ کے اینویں لگدا اے
جیویں ہنڑیں ہنڑیں کوئی ویندا پئے
جیویں ہنڑیں ہنڑیں کوئی ول آسی
خواجہ فرید سئیں نے روہی تھل کے منظر کو باغ بہشت قرار دیا ہے۔
روہی راوے تھیاں گلزاراں
تھل چترانگ وی باغ بہاراں
گھنڈ تنواراں بارش باراں
چرچے دھاونڑ گاونڑ دے
چاندنی رات ملہاری ڈینہ ہے
تھڈڑیاں ہیلاں رم جھم مینہ ہے
سوہنی موسم لگڑا نینہہ ہے
گئے ویلھے غم کھاونڑ دے
چولستان روہی کے صحرا کی اپنی خاموش خوبصورتی،ٹوبھےگوپے،قلعوں کا ثقافتی تاریخی تہذیبی ورثہ اور سخت زندگی کے سچے قصے بہت مشہور ہیں۔ محلاں کی سابق سرائیکی دھرتی ریاست بہاولپور میں واقع قلعہ ڈیراور چولستان کی پہچان ہے۔اس سے جڑی بستیوں میں آج بھی روہیلے مٹی اور درختوں کی چھال سے بنے روایتی رنگین "گوپوں” میں رہتے ہیں۔یہ گوپے صرف رہائش کے لیے گھر نہیں بلکہ روہی کی دلکش ثقافت اور یہاں کے لوگوں کی صدیوں پرانی عملی جدوجہد کی عکاس ہیں۔
گوپے مٹی اور درختوں کی چھال سے بنائے جاتے ہیں اور انہیں خاص مہارت سے تعمیر کیا جاتا ہے۔سرائیکی جدید کلاسک شاعر شاہد عالم شاہد لشاری کے شاعری مجموعہ کا نام بھی "گوپے دے وچ قصہ” ایک منفرد اعزاز ہے۔گوپے کی دیواروں پر مٹی کا لیپ اور باریکی سے کی گئی صفائی ستھرائی اور رنگینی چولستانی دیہی فن کا مظہر ہے ۔شدید گرمی یا سردی کے موسم میں ان گوپوں کو شاپر یا شیٹ سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ تاکہ اندر رہنے والوں کو موسم کی شدت سے بچایا جا سکے۔
گوپے نہ صرف روہیلوں کی رہائش کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ بلکہ مہمانوں کے لئے آرائش و آرام اور محبت کا اعلی نمونہ بھی ہیں۔ان کی تعمیر اور سجاوٹ چولستانی فنکارانہ ذوق کی گواہی دیتی ہے۔کانے سے بنے گوپے،پتلیں،چکیں اور موڑھوں کے علاوہ سر اور کانہاں ( سرکنڈے ) سے بنی چولستانی چنگیریں و دیگر ہاتھ سے بنی اشیاء کو چولستانی و روہی واسیوں کے ہاتھوں کی ہنرمندی اور شاہکار کاریگری کی جادو گری بھی کہا جاسکتا ہے..جاری ہے