نواز شریف سے سوشل تعلق ،چوہدری نثار بیان سے منحرف۔ ۔۔از۔ ۔آصف شاہ

0
25

جھوٹ اور ہماری سیاست کاشائید آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے بڑے سے بڑے پارسائی کے دعویدارسیاست دان بھی بسا اوقات ایساکام کر گزرتے ہیں جن کی ان سے امید نہیں کی جا سکتی قدرت کا اصول شائید اس سے مختلف ہوتاہے بہت کہا سنا اور پڑھا ہے کہ زندگی موت رزق اور عزت زلت رب نے اپنے ہاتھ شائید اس لیے اس دنیاءکا نظام بخوبی چل رہا ہے اور تاقیامت چلتا رہے گاایک سیاسی کارکن اور لیڈر میں کیا فرق ہوتا ہے اس کا اندازہ چند دن قبل ہوا اور ایسا ہوا کہ حیرت سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے ایک تعزیت کے دوران سابق وفاقی وزیرداخلہ بھی آپہنچے جہاں پر دعا کے بعد ملک میں سیاسی سسٹم کی بات چیت چھیڑ دی گئی،جس پر چوہدری نثار علی خان نے حسب روایات مذہبی حوالوں سمیت اپنے آپ کو پوتر ثابت کرتے ہوئے اس تمام نظام کی تباہ کاری کا زمہ تمام سیاسی پارٹیوں اور لیڈران کو زمہ دار قرار دیا،سیاسی طور پر ماحول گرم ہواور صحافی بھی موجود ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سوال سامنے نہ آئے چوہدری نثار پورے جوش کے ساتھ بات کر رہے تھے کہ اسی دوران سینئر صحافی کالم نگار محترم طارق بٹ نے سوال داغ دیاکہ ماہ ریبع الاول کا بابرکت مہنہ ہے اور آپ کی میاں نواز شریف سے 40 سالہ رفاقت ہے کیا ا ن کی عیادت کے لیے جائیں گے تو عظیم سیاسی لیڈر نے لال سرخ ہو کر جو جواب دیا وہ انتہائی حیران کن تھا کہ میں کیوں جاوں عیادت کو نوازشریف سے میرا کوئی کوئی سوشل تعلق نہیں جس پر دوبارہ سوال ہوا کہ کوئی سوشل تعلق نہ سہی لیکن سیاسی تعلق توہے لیکن چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ کوئی تعلق نہیں ہے ایسا سوال تو بنتا ہی نہیں ہے ہمیشہ اصولوں کی سیاست کی بات کرنے کے دعوے کرنے والے اور حلقہ میں کروڑوں کے کام کروانے کے دعوے کرنے والے چوہدری نثار علی خان کیا بتانا پسند کرینگے کہ ان کی کروفر کس کی وجہ سے تھی اور ہے وہ تھی ن لیگ جس کی قیادت نے ہمیشہ چوہدری نثار علی خان کو اپنے سے آگے رکھا اور ان کے منہ سے نکلا ہو ایک ایک لفظ کو وہ اہمیت دیتے رہے لیکن جب ن لیگ کی کشتی میں سوراخ کی ابتداءکی گئی تو اس میں پہلا قطرہ بھی چوہدری نثار علی خان بنے اور انہوں نے بڑے زعم سے کہا کہ مجھے کسی کی کوئی ضرورت نہیں بات اگر سوشل تعلق ہونے یا نہ ہونے کی ہے تو کیا میاں نواز شریف اور ن لیگ کی اتنی بھی حثیت نہ رہی ہے کہ کارکنان کے پاس جانے والے چوہدری نثار نے میاں نواز شریف کی تیماردار ی تک کرنا گوارا نہیں کیا،اس سے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب اس خبر کی تردید سامنے آئی کہ چوہدری نثار علی خان نے ایسی کوئی بات کی ہی نہیں ہے راقم عین چوہدری نثار علی خان کے سامنے موجود تھا وہاں پر موجود بیشتر مقامی سیاسی رہنماوںجن کا نام لکھنا مناسب نہیں ہے سے ایک مودبانہ سا سوال ہے کہ کیا وہ اس بات کا حلف دے کر کہ سکتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان نے طارق بٹ کے سوال پر یہ جواب نہیں دیا تھا ،یہ ایک اس لیڈر کی کوالٹی تھی کہ جس نے چار دہائیوں سے جس پارٹی کی اینیٹں لگانے کے دعوے کے اس کی اور اگر میاں نواز شریف کی کوئی کوالٹی اور سوشل تعلق نہیں تھا تو عام ورکروووٹرز اور جیپ کے سامنے ناچنے والوں کو اپنی حثیت کا بخوبی اندازہ ہوناچاہیے،اب ایک رخ یوسی کے ایک کارکن اورمقامی لیڈر کاجس نے پارٹی سے وابستگی کو ثابت کیا یوسی غزن آباد سے تعلق رکھنے والے وائس چیئرمین ظفر مغل کاجس نے گزشتہ الیکشنوں میں جب ن لیگ کی سیاسی کشتی وقتی طور پر ڈوب رہی تھی تو اس کے ساتھ موجود چیئرمین نے جیپ کی سواری کو ترجیح دی اور پارٹیاں بدلنے والوں نے اپنی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے صداقت عباسی کو پھولوں کے گلدستے پیش کر کے اپنی وقتی سیاسی رقابت داری کا یقین دلایاکیونکہ اس کی سیاسی شہرت اسی چیز کی حامل ہے کہ وہ وقت بدلنے پر پارٹیاں بھی بدلی کرتے ہیں لیکن اس کڑے وقت میں مرد آہن نے نہ صرف یوسی کی سطح پر ڈٹ کر کھڑا ہوا بلکہ اس نے تمام سیاسی جماعتوں کی سیاست کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ اپنی یوسی میں شاہد خاقان عباسی کی لیڈ کو پونے چار سو میں بدلا یوسی سے جتوایا بلکہ انہوں نے صوبائی سطح پر انہوں اس وقت نیب کے سکنجے میں کسے ہوئے قمراسلام کی بھر پور حمائیت کی اور اوپر اور نیچے کی سیاست کو دفن کر دیا اب بھی اگر ان کی سیاسی بصیرت پر نظر ڈالیں تو وہ تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی دھڑوں کو سیاسی طور پر مکمل زیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وقت پڑنے پر کسی بھی سیاسی جماعت پر سیاسی بصیرت سے پچھاڑ سکتے ہیں اب میرا اپنے جیسی مسائل کی چکی میں پسی ہوئی عوام سے ایک سوال ہے کہ کون سیاسی حوالہ سے بہتر ہے ایک یوسی کا وہ سیاسی لیڈر جو ہر مشکل میں اپنے لیڈران اور کارکنان کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے یا چوہدری نثار علی خان جن کے سامنے چالیس سالہ سیاسی رفاقت کی کوئی حثیت نہ ہے اس کا جواب عام عوام ہی بہتر دے سکتی ہے ہمارا سیاسی نظام اور ہم اتنے ڈوب چکے ہیں اس کا اندازہ تھا لیکن اتنا زیادہ ڈوب چکے اس کا ادراک ااب ہوا ہے

Leave a reply