کوئٹہ:چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کا دفتر صوبے کے دیگر دفاتر کیلئے رول ماڈل ہوتا ہے ہر دفتر کو پالیسی وہی سے ملتی ہے اور وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ وہاں کے معاملات کیسے چلائے جاتے ہیں-
باغی ٹی وی : :چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں ہونے والی بھرتیوں پر وہاں کے ملازم نے ہمارے سامنے اپنی درخواست میں اعتراض اٹھایا ہے اگر یہ بات سچ ہوئی تو دیگر دفاتر میں شفاف طرز عمل کے تحت چلانے کا کیسے عام آدمی یقین کرے گا سیکرٹری لیبر اینڈ مین پاور اور سیکرٹری ایجوکیشن کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اگلی سماعت میں اپنے محکموں میں ہونے والے بھرتیوں کے متعلق تفصیلی تحریری جواب جمع کروائیں خلاف قانون اقدامات کی حوصلہ شکنی ہی خلاف قانون اٹھنے والے قدم روک سکتا ہے-
یہ حکم چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اختر افغان اور عبدالحمید بلوچ پر مشتمل بینچ نے بایزید خان خروٹی برخلاف چیف سیکرٹری بلوچستان ودیگر کی سماعت کے دوران دیا‘ سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ظہور بلوچ نے سیکرٹری مذہبی امور عبدالطیف کاکڑ کی دستخطو ں سے جاری شدہ جواب جمع کرایا جس میں بتایا گیا کہ محکمہ مذہبی امور لسبیلہ اور کیچ کے اضلاع میں مساجد جن میں ممکنہ طور پر تقرریاں کی جارہی ہیں وہ پرائیویٹ وقف مساجد ہیں علاقہ مکینوں اور مساجد کمیٹیوں کے ممبران نے متعلقہ ڈپٹی کمشنروں / ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریٹرز اوقاف کو متعلقہ مساجد میں پیش امام اور موذن کی پوسٹیں تخلیق کرنے کی سفارش کرنے کی استدعا کی –
محکمہ ہذا نے ضلع لسبیلہ میں گزشتہ 8 سال سے اور ضلع کیچ میں گزشتہ 3 سال سے کوئی موذن یا پیش امام تعینات نہیں کیااور یہ کہ آسامیوں کی تخلیق یا منظوری یہ محکمہ نہیں دیتا بلکہ یہ کام فنانس ڈیپارٹمنٹ متعلقہ عوامی نمائندوں یا ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کی جانیوالی تجاویز پر کرتا ہے۔ محکمہ ہذا اس کو پیش کی جانیوالی تجاویز فنانس ڈیپارٹمنٹ بلوچستان کو بھجوا دیتا ہے اور بسا اوقات ایسی تجاویز فنانس ڈیپارٹمنٹ کو براہ راست بھی پیش کر دی جاتی ہیں-
مزید برآں مدعا علیہ نے عدالت عالیہ کے سامنے پوسٹوں کی تعداد غلط بیان کی ہے درحقیقت ان پوسٹوں میں متعلقہ ضلعوں کی گزشتہ سالوں کی پوسٹیں بھی شامل ہیں‘ جن کی تفصیل وضاحت کے لئے پیش ہیں۔عرضداشت مندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں عدالت عالیہ سے استدعا کہ انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہرجانے کے ساتھ پٹیشن مبنی بر غلط حقائق اور من گھڑت الزامات کی وجہ سے ڈسمس کی جائے-
لاہور: بلیاں پالنے پر نوجوان خاتون پر اپنے ہی گھر والوں نے تیزاب پھینک دیا
درخواست گزار بایزید خان خروٹی نے محکمے کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے یہ عدالت سے استدعا کی کہ وہ نہیں چاہتے حکومتی معاملات میں وہ خود یا کسی اور ادارے کو ملوث کریں لیکن جس قانون میں وضع کردہ رولز کے مطابق محکمے نہیں چلائے جارہے جس کی وجہ سے مجبوراً وہ بطور درخواست گزار گاہے بگاہے عدالت عالیہ کے سامنے پیش ہوتے ہیں جس کی بنیادی وجہ نظام کو قانون اور آئین کے بجائے من پسند افراد کی خواہشات اور من پسند افراد کے ذریعے چلانے کی کوشش کی جارہی ہے-
اس آئینی درخواست میں سیکرٹری ایجوکیشن اور سیکرٹری لیبر کے خلاف قانون بھرتیوں کو بھی میں نے چیلنج کررکھا ہے حکومت بلوچستان اپنے خلاف اقدامات پر پردہ ڈالنے کیلئے عدالت کے سامنے حقائق رکھنے کی بجائے معاملات کو الجھا رہی ہے سیکرٹری لیبر اینڈ مین پاور اور سیکرٹری ایجوکیشن کو پچھلی سماعت پر جواب جمع کرانے کا حکم معزز عدالت عالیہ دے چکی ہے لیکن جواب بدستور جمع نہیں کرائے گئے ہیں –
کورونا کیسز میں اضافہ: اسلام آباد کے مختلف علاقے سیل کرنے کا فیصلہ
جس پر چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کیا کہ درخواست گزار پیشے کے لحاظ سے وکیل تو نہیں ہے درخواست میں سب کچھ بہت واضح طور پر لکھاگیا ہے اگر کوئی بھی پڑھا لکھا شخص بیٹھ کرکے یہ درخواست پڑھے تو ان کو آسانی ہوگی کہ درخواست میں کن چیزوں کا مطالبہ کیاگیا ہے اور بڑے آسا ن سے اس درخواست کو سمجھا جاسکتا ہے آپ محکموں کو کہیں کہ تمام پیرے پڑ ھ کر آسانی سے ہر پیرے کا جواب دے سکتے ہیں کیا وہ آرڈر شیٹ نہیں دیکھتے یہاں تو دونوں کو نوٹسز جاری ہوئے ہیں ان کے جوابات کہاں ہے کیوں جمع نہیں کرائے گئے –
جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ ایک اور موقع ان کو دیا جائے اگلی سماعت پر دونوں محکموں کے بھرتی اور مکمل ریکارڈ عدالت عالیہ کے سامنے تحریری طور پر پیش کریں گے-
ویمن سیفٹی ایپ کی بدولت خواتین آسانی سے پولیس کی مدد حاصل کر سکے گی فیاض الحسن…
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ صوبائی حکومت کوٹہ پر عملدرآمد نہیں کررہی ہے جس کی وجہ سے بھرتیوں پر شکوک و شہبات پیدا ہوتے ہیں ابھی ہمارے سامنے پی ایچ ای کے انجینئرز کا کیس زیر سماعت تھا جس پر حکومت نے ازخود انکوائری کراتے ہو ئے اس بھرتی کو خلاف قانون قراردیتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان بھرتیاں کالعدم قراردی تھی کہیں پر تو اس میں غلطی ہوئی تھی جب تک ہم کسی غلط کام کی اصلاح کے ساتھ غلطیوں کے عوامل کو ختم نہیں کرتے تو وقتی طور پر مسئلے حل ہوں گے اور پھر سے پیش آئیں گے-
انہوں نے کہاکہ کل ہمارے پاس وزیراعلیٰ بلوچستان کے سیکرٹریٹ کی ایک ملازم سرفراز خان کی درخواست پر سماعت ہوئی جس میں انہوں نے اپنے پروموشن کو انتقامی کارروائیوں کے ذریعے روکنے اور وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں بھرتیوں میں خلاف قانون اور رولز کے آرڈر ز کرنے کا دعویٰ کیا-
نواز شریف کے ساتھ بیٹھنے والے بھی ان جیسے حال میں پہنچ گئے شہباز گل
کتنی افسوس کی بات ہے کہ ایک صوبے کو پالیسی دینے والے رول ماڈل دفتر پر ان کا اپنا ملازم سوال اٹھارہا ہے کل عام محکمے سے ہم کیا توقع رکھیں کہ کیا وہ میرٹ پر چلیں گے-
انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اس کیس میں بھی بھرتیوں کے حوالے سے جواب جمع کرائے اگر کوئی چیز عدالت کے سامنے ایسی ریکارڈ پر آئی کہ کوئی خلاف قانون اقدام ہوا تو ہم ا س میں سخت ترین فیصلہ کریں گے اور آخر تک جائیں گے-
جسٹس عبدالحمید بلوچ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ یہاں تو سب کچھ بڑا واضح ہے اگر قانون پر عملدرآمد صحیح ہورہا ہوں تو کسی کو بھی کوئی تکلیف نہیں کہ وہ عدالت یا کسی اور جگہ سے رجوع کریں عدالت عالیہ نے سیکرٹری مین پاو ر اینڈ لیبر اور سیکرٹری ایجوکیشن کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے اگلی سماعت پر مفصل جواب طلب کرلیا۔