پاکستانی سفارتخانوں کا سمندرپارپاکستانیوں سےنوآبادیاتی دوروالا رویہ ناقابل قبول:وزیر اعظم

0
23

اسلام آباد :پاکستانی سفارتخانوں کا سمندرپار پاکستانیوں سے نوآبادیاتی دور والا رویہ ناقابل قبول ہے،اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے دنیا بھر کے پاکستانی سفارتخانوں میں سمندر پار پاکستانیوں سے خراب رویے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انگریزوں کا پرانا نوآبادیاتی نظام تو اس طرح چل سکتا ہے لیکن موجودہ پاکستان میں یہ نظام نہیں چل سکتا۔

اس موقع پروزیراعظم نے غیرملکی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی رہائی کے لیے فنڈزقائم کرنے کا اعلان کیا اوریہ وعدہ کیا کہ اس فنڈز سے جرمانے کی رقم اداکرکے پاکستانیوں کوقید سے رہائی دلاکرپاکستان واپس لایا جائے گا

دنیا بھر میں تعینات پاکستانی سفرا سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ دیگر مصروفیات کی وجہ سے میں اس جانب اتنی توجہ نہیں دے سکا جتنی مجھے دینی چاہیے تھی۔

پاکستانی سفارتخانے ایسے نہیں چل سکتے، سفارتخانے اوورسیز پاکستانیوں سے اپنا رویہ تبدیل کریں، یہ لوگ ہمارا اثاثہ ہیں، خلاف ورزی پر آپ کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا، وزیراعظم عمران خان نے دنیا بھر کے پاکستانی سفیروں کو وارننگ جاری کر دی۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ سمندر پار پاکستانی ہمارا اثاثہ ہیں، سفارتخانے اوورسیز پاکستانیوں سے اپنا رویہ تبدیل کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اقتدار میں آنے کے بعد وزارت خارجہ کو رہنمائی بھی دی کہ ہم نے سمند پار پاکستانیوں کے لیے کیا کیا چیزیں کرنی ہیں کیونکہ وہ ہماری سب سے بڑی طاقت ہیں اور ان کی وجہ سے ہی پاکستان اب تک چل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر کی وجہ سے ہی ہمارا ملک اب تک دیوالیہ نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ میں انگلینڈ میں کھیلنے کے لیے گیا تھا اس لیے مجھے انداز ہے کہ ہمارے سفارتخانوں کا رویہ کیا ہوتا ہے لہٰذا جب میں وزیراعظم بنا تو میں سب سے بڑی خواہش بنے کہ ہمارے سفارتخانوں میں عوام سے سمندر پار پاکستانیوں سے روا رکھے جانے والا رویہ بدلے۔

انہوں نے کہا کہ پڑھے لکھے اور پوش لوگوں سے ہمارے سفارتخانوں کا رویہ اچھا رہتا ہے لیکن نچلے طبقے کو ہمیشہ بڑے مسائل کا سامنا رہا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ 70 اور 80 کی دہائی میں انگلینڈ میں ہمارے سفیروں اور سفارتخانے کے عملے کا مزدور طبقے سے رویہ بہت خراب ہوتا تھا، مزدور کی توقعات تو اپنی سفارتخانے سے ہی وابستہ ہوتی تھیں لیکن کچھ سفیروں اور اہلکاروں کا نوآبادیاتی دور والا رویہ ہوتا ہے جو ناقابل قبول ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے سعودی عرب سے شکایات آنا شروع ہوئیں، ڈیڑھ سال سے ہمارے محنت کش لوگوں کی شکایات آ رہی تھیں کہ سفارتخانہ کوئی جواب نہیں دیتا اور اس کے بعد ایک دو واقعات ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا جن پاکستانیوں سے زیادہ رابطہ رہا ہے ان سے میں نے کہا کہ مجھے سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے کے حوالے سے رائے دیں تو انہوں نے جو رائے دی اس سے بہت بڑا دھچکا لگا کہ عوام کی کوئی پروا نہیں، کوئی سروسز فراہم نہیں کی جا رہیں جبکہ ہمارے سٹیزن پورٹل پر بھی شکایات دیکھیں جو بالکل یکساں تھیں۔

انہوں نے کہا کہ شکایات اس بات کی شاہد ہیں کہ ہمارے سفارتخانے اپنے سمندر پار پاکستانیوں سے نوآبادیاتی دور والا رویہ اپناتے ہیں لیکن میں بتا دوں کہ اس طرح ہم نہیں چل سکتے۔

عمران خان نے کہا کہ انگریزوں کا پرانا نوآبادیاتی نظام تو اس طرح چل سکتا ہے لیکن موجودہ پاکستان میں یہ نظام نہیں چل سکتا، سفارتخانے کا کام اپنے لوگوں کو سروسز فراہم کرنا ہے اور اس کے بعد ان کی پوری کوشش اپنے ملک میں سرمایہ لانے کی ہونی چاہیے۔

اس موقع پر وزیراعظم نے بھارتی سفارتخانے کے عملے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے برعکس بھارت کے سفارتخانے اپنے ملک میں سرمایہ کاری لانے کے لیے بہت زیادہ متحرک ہیں۔

اس موقع پر وزیراعظم نے سٹیزن پورٹل پر سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے درج کرائی گئی شکایات بھی پڑھ کر سنائیں جس کے مطابق روزمرہ اماور التوا کا شکار ہوتے ہیں، دیے گئے وقت پر کام نہیں کرتے، عملے کا خراب رویہ، عوامی شکایات کے حوالے سے اعلیٰ سطح سے کوئی نگرانی نہیں، شکایات کے ازالے کے لیے غیرسنجیدہ رویہ شامل ہے۔

انہوں نے ایک شکایات پڑھی جس میں کہا گیا کہ کویت میں نادرا کے دفتر کا عملہ لوگوں کی درست رہنمائی کرنے کے بجائے غیرقانونی دستاویزات بنانے کے لیے 250 سے 500 درھم لے رہا ہے اور سفارتخانہ اس کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے کہہ رہا ہے کہ نادرا دستاویزات ہیڈ کوارٹر میں بنتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ شکایات متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے موصول ہوئیں جہاں سے پاکستان کو سب سے زیادہ ترسیلات زر آتی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ سعودی عرب میں جو ہوا اس پر بہت دھچکا لگا ہے اور ابھی اس بارے میں تحقیقات ہو رہی ہیں تو مزید چیزیں بھی سامنے آئیں گی۔

وزیر اعظم نے وزارت خارجہ کو ہدایت کی کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ کسی سفارتخانے سے زیادہ رقم غیرملکی سرمایہ کاری آ رہی ہے اور کون زیادہ متحرک طریقے سے کام کررہا ہے۔

Leave a reply