کرونا ویکسین اور عوام کی ہچکچاہٹ .تحریر: ڈاکٹر محمد عمیر اسلم

کرونا وائرس آغاز سے ہی مختلف قسم کے شک شبہات کا شکار رہا ہے۔ ماہرین آج تک اس کے اسٹارٹنگ پوائنٹ کا تعین نہیں کر سکے۔ امریکن ماہرین کا خیال ہے کہ اس کا آغاز ووہان کی ایک لیبارٹری سے ہوا، کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ کرونا ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ سے پھیلنا شروع ہوا، اور کچھ تحقیقات بتاتی ہیں کہ جب چائنہ میں یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا اُس وقت امریکہ میں بھی اِس کے مریض تھے۔

پاکستان میں اِس وبا کو بھی ایک سازش کے طور دیکھا گیا۔ عوام کی اکثریت نے اس بیماری کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا۔اور طرح طرح کی تاویلیں پیش کی گئی۔

زہر کے ٹیکے:
کچھ لوگوں نے ہیلتھ کیئر ورکرز پر الزام لگایا کہ حقیقت میں کرونا کچھ نہیں ہے، پیسوں کی لالچ میں یہ ڈاکٹرز جان بوجھ کر ہر مریض کو کرونا میں ڈال رہے ہیں۔ اور چونکہ ڈاکٹروں کو مریض مارنے کے عوض امریکہ سے ڈالرز ملتے ہیں اس لیے لوگوں کو زہر کے ٹیکے لگا کر اُنکے اعضاء نکالے جا رہے ہیں، اسی وجہ سے میت کو دیکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ حالانکہ بُہت سارے ڈاکٹرز، نرسز اور اُنکے گھر والے خود اس بیماری کا شکار ہو گئے۔ اور میت کی تدفین کے لیے ڈبلیو ایچ او کی ہدایات پر عمل کیا جا رہا تھا۔

مساجد بند کرانے کی سازش:
بیماری کا پھیلاؤ روکنے کے لیے جب لاک ڈاؤن لگایا گیا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ مساجد بند کرانے کی سازش ہے۔ حالانکہ وبا کی صورت میں اسلام نے نہ صرف بیمار اور صحت مند کے اکٹھا ہونے سے منع کیا ہے بلکہ دیگر ضروری اقدامات کا بھی حکم دیا ہے۔

سلام نے ہمیں سنی سُنائی باتوں کو بغیر تصدیق آگے پھیلانے سے منع فرمایا ہے لیکن ہم نے کرونا وبا میں اس نصیحت پر عمل کرنے کی بجائے سنی سنائی باتوں کو مرچ مسالا لگا کر آگے پھیلایا۔

وہ لوگ جنہوں نے وبا کے عروج کے وقت حفاظتی تدابیر پر یہ کہہ کر عمل نہیں کیا کہ "موت کا جو وقت معین ہے اس سے پہلے نہیں آ سکتی” اور کرونا وائرس ہمیں کچھ نہیں کہتا” وہ لوگ بھی اس وقت ویکسین سے خوفزدہ ہیں۔

اپساس سروے:
بین الاقوامی مارکیٹ ریسرچ ادارے ’اپساس‘ کے پاکستان میں ہوئے ایک حالیہ سروے کے مطابق 39 فی صد افراد تاحال کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگوانے کو تیار نہیں ہیں۔
اس سروے میں پوچھا گیا کہ کرونا وائرس کی ویکسین دستیاب ہونے پر کیا آپ اسے لگوائیں گے؟ جس کے جواب میں 61 فی صد افراد نے ہاں جب کہ 39 فی صد نے نفی میں جواب دیا۔

اس انکار کی وجہ ویکسین کا نئی ہونا نہیں، کیوں کہ کئی سالوں سے حفاظتی ویکسینز استعمال کی جا رہی ہیں اور ویکسین کو کسی بھی نا قابل علاج بیماری سے بچنے کا محفوظ ترین اور موثر ترین طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
کرونا وائرس سے جڑے شک شبہات کی طرح اسکی ویکسین کے متعلق موجود بہت سارے ابہام، شک شبہات اور غلط فہمیاں لوگوں کے انکار کی وجہ ہیں۔

ویکسین کے متعلق غلط فہمیاں:
ویکسین کے متعلق پہلے افواہ یہ پھیلائی گئی کہ اِس میں ایک چپ موجود ہے جس کے ذریعے نہ صرف لوگوں کی جاسوسی کی جائے گی بلکہ اس سے اُنکا دماغ بھی کنٹرول کیا جائے گا۔ اس افواہ کو تقویت اس طرح ملی کہ کچھ لوگوں نے ویکسین لگنے کی جگہ پر میگنیٹ چپکانے کی ویڈیو شیئر کیں۔ لیکن حقیقت میں اُس ویڈیو کو بنانے کے لیے بغل کے نیچے بھی میگنیٹ چھپایا گیا تھا۔ بہرحال بُہت سارے لوگ ابھی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ویکسین بھی ایک یہودی سازش ہے اور اس میں چپ موجود ہے جس کے ذریعے مسلمانوں کا ذہن کنٹرول کیا جائے گا۔

میگنیٹ والی تھیوری کے بعد ایک نئی تھیوری پیش کی گئی کہ ویکسین لگوانے والے دو سال میں وفات پا جائیں گے، اور اس کو تقویت دینے کے لیے ایک نوبل انعام یافتہ سائنس دان کی تحقیق کا حوالہ بھی دیا گیا۔ حقیقت میں اُس تحقیق میں بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کی وجہ سے وائرس کے زیادہ مضبوط ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ لیکن یہاں کچھ لوگوں نے اُسکو بالکل تبدیل کر کے پھیلایا۔

ویکسین سے متعلق اس خوف و ہراس کی وجہ غیر تصدیق شدہ باتوں کا پھیلاؤ ہے۔ ہم لوگ اپنی مشہوری کے لیے نہ صرف خود سے کہانیاں گھڑ لیتے ہیں بلکہ مرچ مسالا لگا کر دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ہم متعلقہ ماہرین کی تحقیق اور ہدایات پر غیر متعلقہ لوگوں کی ذاتی رائے کو فوقیت دیتے ہیں۔

ویکسین کے سائڈ ایفیکٹس:

ویکسینز عموماً بُہت زیادہ محفوظ ہوتی ہیں لیکن ہر ویکسین کے کچھ معمولی سے مضر اثرات ہوتے ہیں۔ جو کہ دراصل ہمارے جِسم کے دفاعی نظام کے فعال ہونے کی نشانی ہوتے ہیں۔ ویکسین لگنے کے بعد عمومی طور پر ہلکا پھلکا بخار، جسم درد، جوڑوں میں درد، ٹیکہ لگنے کی جگہ پر اکڑاؤ اور درد وغیرہ ہو سکتا ہے جو کہ ایک دو دن میں ٹھیک ہو جاتا ہے، لیکن یہ ایک دن کی تکلیف ہمیں جان لیوا بیماری سے بچا لیتی ہے۔

کچھ لوگوں میں کسی جینیاتی مسئلے کی وجہ سے کچھ شدید سائڈ ایفیکٹس بھی آئے ہیں جن میں خون کا جمنا (آسٹرا زنيكا) اور دل کے مسلز کا ہلکی نوعیت کا انفیکشن (فائزر) شامل ہیں۔ لیکن ان کی شرح تقریباً 0.0004٪ ہے (1000000 افراد میں 4 کیسز) لیکن بیماری کی وجہ سے انہی مسائل کی شرح 16.5٪ ہے(1000000 افراد میں 165000 کیسز)۔

شرح اموات میں کمی:
گزشتہ ایک مہینے کے ریکارڈ کے مطابق، امریکہ میں کرونا کی وجہ سے ہونے والی اموات کی شرح اُن لوگوں میں زیادہ ہے جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی۔ 99.2 فیصد اموات ویکسین نا لگوانے والوں کی ہوئی ہیں۔(18150 میں سے 18000 اموات ویکسین نا لگوانے والوں کی ہوئی ہیں)

دُنیا میں ویکسینیشن کی شرح:
اسرائیل 60٪، بحرین 55٪، انگلینڈ 47٪، امریکہ 45٪
جرمنی 34٪، ڈنمارک 30٪، فرانس 26٪، کینیڈا 23٪،
چائنا 16٪، انڈیا 14٪، روس 11٪، پاکستان 2٪
مندرجہ بالا شرح ویکسین کی دونوں خوراکوں کے حساب سے ہے۔ یہ واضح ہے کہ ویکسین کو جن یہودیوں کی سازش کہا جا رہا ہے اُنہوں نے سب سے زیادہ ویکسینز لگوائی ہیں۔ یاد رہے بیماری ایک سازش ہو سکتی ہے علاج نہیں۔ کیوں کہ علاج کی ضرورت سازش کرنے والوں کو بھی پڑتی ہے۔

عمومی شک و شبہات اور اُنکے جوابات

1) کیا واقعی ویکسین میں چپ موجود ہے؟
بالکل بھی نہیں۔ ویکسین عام طور پر مردہ وائرس یا نقلی وائرس (بیماری پھیلانے والے وائرس کا ہم شکل) سے بنائی جاتی ہے۔ اس میں کسی چپ کی موجودگی ممکن نہیں۔
بالفرض اگر چپ موجود ہو بھی تو وہ انجکشن میں تیرتی نظر آنی چاہئے جو کہ نہیں آتی، اور چپ کا سرنج سے گزرنا ممکن نہیں۔ اور ایسی چپ بنائی ہی نہیں جا سکی جو عام آنکھ سے نظر نہ آئے۔

2) کیا ویکسین لگوانے والے 2 سال میں مر جائیں گے؟
اس سوال کا جواب بھی نہیں میں ہے۔ ویکسینز جان بچانے کیلئے بنائی جاتی ہیں۔ اور آج تک کسی بھی شخص کی موت واقع نہیں ہوئی۔ زندگی اور موت کا اختیار اور علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔

3) کیا ویکسین سے بانجھ پن کا خطرہ ہوگا؟
کوئی بھی زندہ وائرس صرف متعلقہ بیماری پھیلا سکتا ہے، اور مُردہ وائرس صرف متعلقہ بیماری سے بچا سکتا ہے۔ ویکسین سے کسی اور بیماری کا امکان نہیں ہوتا۔ اور بحثیت مسلمان ہمارا ایمان یہ ہے کہ اولاد دینے کا اختیار بھی صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔

4) زبردستی ویکسین کیوں؟
انفرادی طور پر کسی بھی شخص کو زبردستی ویکسین نہیں لگائی جاتی۔ لیکن بحثیت معاشرہ ہماری زمہ داری ہے کہ ویکسین لگوا کر اپنے آپ کو محفوظ بنائیں۔ کچھ ادارے اپنی ملازموں کی حفاظت کے لیے ویکسین لگوانے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں کیوں کہ وہاں آپ کے ساتھ کئی دیگر لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ آپ کی وجہ سے کس دوسرے کو بیماری ہو جائے تو زمہ دار آپ ہی ہوں گے۔
5) جن میں وائرس نہیں اُن میں وائرس کیوں داخل کریں؟
ویکسینز میں صحتمند وائرس نہیں ہوتا۔ یا تو وائرس کو کیمیکل سے مار دیا جاتا ہے یا اپاہج کر دیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ بیماری نہیں پھیلا سکتے۔ کچھ ویکسینز میں وائرس کی خاص پروٹین (آسان الفاظ میں شکل) کسی دوسرے وائرس میں لگا دی جاتی ہے، جس سے ہمارا جِسم ہوشیار ہو جاتا ہے لیکن بیمار نہیں ہوتا۔

6) آسٹرا زینیکا ویکسین اور 40 سال سے کم عمر افراد؟
حال ہی میں لوگوں کی ڈیمانڈ پر پاکستان میں 40 سال سے کم عمر افراد کو آسٹرا زینیکا ویکسین لگانے کا آغاز کیا گیا ہے۔ عام حالات میں ‌‌‌‎آسٹرا زنیکا ویکسین 40 سال سے کم عمر افراد کے لیے نہیں ہے۔ ان کے لیے دیگر ویکسینز موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود 40سال سے کم عمر والا کوئی شخص یہ ویکسین لگوانا چاہتا ہے تو وہ اپنی زمہ داری پر ہی لگوائے گا۔ (گورنمنٹ اس کا مشورہ نہیں دیتی) ۔

ضرورت اس امر کی ہے ہمیں اپنے اللّٰہ پر کامل یقین رکھتے ہوئے ان افواہوں پر توجہ نہیں دینی چاہئے اور متعلقہ ماہرین کی ہدایات پر عمل کرنا چاہئے۔

Leave a reply