کورونا وائرس کے بعد سے عالمی سطح پر معیادِ زندگی میں کمی،اقوام متحدہ

0
42

اقوامِ متحدہ کے مطابق کورونا وائرس کے بعد سے عالمی سطح پر معیادِ زندگی میں کمی واقع ہوئی ہے۔

باغی ٹی وی : پیر کو شائع ہونے والی اقوامِ متحدہ کی دنیا کی آبادی کے متعلق تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2019 کی نسبت 2021 میں عالمی سطح ہر لوگوں کی اوسط عمر میں تقریباً دو سال کمی آئی ہے بولیویا اور روس جیسے دیگر کچھ ممالک میں اوسط عمر میں چار سال سے زیادہ کی ڈرامائی کمی سامنے آئی۔

کورونا کا پہلا کیس چین میں 2019 کے آخر میں ریکارڈ ہوا، جبکہ باقی دنیا میں یہ انفیکشن 2020 میں پھیلنا شروع ہوا۔تب سے ایک اندازے کے مطابق 67 لاکھ سے زائد افراد وائرس کے سبب ہلاک ہو چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2021 میں عالمی معیادِ زندگی 71 سال تک گِر گئی۔ یہ معیاد 2019 میں 72.8 سال تھی ایسا ہونے کی بڑی وجہ کورونا وائرس ہے کورونا کا معیادِ زندگی پر اثر مختلف خطوں اور مملک میں مختلف ہے بولیوا، بوٹسوانا، لبنان، میکسیکو، عمان اور روس میں 2019 سے 2021 کے درمیان زندگی کے دورانیے میں چار سال سے زائد کی کمی ہوئی۔

اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق عالمی معیادِ زندگی 2050 تک دوبارہ بڑھ کر 77.2 سال تک ہوجائے گی۔

دوسری جانب کورونا وائرس اومیکرون کی نئی قسم اس وقت کئی ممالک میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے کورونا کی بی اے 2.75 نامی اس قسم کو سینٹورز کا نام بھی دیا گیا ہے جو سب سے پہلے مئی 2022 کے شروع میں بھارت میں دریافت ہوئی تھی اس کے بعد سے یہ کئی ممالک میں اومیکرون کی ایک اور بہت تیزی سے پھیلنے والی قسم بی اے 5 کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔

کورونا وائرس چین سے نہیں بلکہ امریکی لیبارٹری سے لیک ہوا،امریکی پروفیسر کا انکشاف

بی اے 2.75 کو اب تک برطانیہ، امریکا، آسٹریلیا، جرمنی اور کینیڈا سمیت 10 سے زیادہ ممالک میں دریافت کیا جاچکا ہے یورپین سینٹرز فار ڈیزیز پریونٹیشن اینڈ کنٹرول (ای سی ڈی سی) نے اومیکرون کی اس نئی قسم کو انڈر مانیٹرنگ ویرینٹ قرار دیا تھا۔

برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی کے ماہر ڈاکٹر اسٹیفن گرافن نے بتایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس بہت تیزی سے خود کو بدل رہا ہے اس سے وائرس کی اپنے اسپائیک پروٹین میں تبدیلیاں لانے کی حیرت انگیز صلاحیت کی مثال ملتی ہے-

ڈاکٹر اسٹیفن گرافن نے کہا کہ اسپائیک پروٹین کو یہ وائرس انسانی خلیات متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور بیشتر ویکسینز میں وائرس کے اسی حصے کو ہدف بنایا گیا ہے پہلے بیشتر افراد ڈیلٹا کو ہی وائرس کا ارتقائی عروج تصور کررہے تھے، مگر اومیکرون کی آمد اور اینٹی باڈیز کے خلاف وائرس کی بڑھتی مزاحمت سے عندیہ ملتا ہے کہ اس وائرس کو انفلوائنزا جیسا سمجھنا ٹھیک نہیں-

کورونا وبا ختم نہیں ہوئی ہجوم والی جگہوں پر شہری احتیاط کریں ،قومی ادارہ صحت

امپرئیل کالج لندن کے وائرلوجسٹ ڈاکٹر ٹام پیکاک نے بتایا کہ ابھی اس نئی قسم میں ہونے والی میوٹیشنز کے بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا مشکل ہے، یعنی اس سے وائرس کو پھیلنے میں کس حد تک مدد ملے گی ابھی کہنا مشکل ہے۔

ڈاکٹر ٹام پیکاک نے ہی نومبر 2021 میں سب سے پہلے اومیکرون قسم کو شناخت کیا تھا اور اب ان کا کہنا ہے کہ یہ نئی قسم بی اے 5 کو پیچھے چھوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے بھارت میں یہ نئی قسم بہت تیزی سے پھیل رہی ہے مگر وہاں کا ڈیٹا ابھی بہت زیادہ واضح نہیں۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بھی کورونا کی اس نئی قسم کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے اور ادارے کی عہدیدار ڈاکٹر سومیا سوامی ناتھن کے مطابق ابھی بی اے 2.75 کے حوالے سے دستیاب نمونوں کی تعداد ناکافی ہےماہرین نے کہا ہے کہ بی اے 2.75 میں بہت زیادہ تعداد میں میوٹیشنز ہوئی ہیں-

کینیڈین وزیراعظم کا کورونا ٹیسٹ ایک مرتبہ پھر مثبت آ گیا

Leave a reply