بلوچستان کی جیلیں کرونا وائرس کا گڑھ بن گئیں ، تحریر شفیق الرحمان

0
41

کورونا وائرس اور قیدی ، تحریر شفیق الرحمان

کورونا وائرس کے بڑھتے خطرات کے سبب دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں حکومتوں کو اس خطرے کا ادراک کروانے کے لیے بھرپور زور ڈال رہی ہیں کہ جیل کے معمولات اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ جہاں ممکن ہی نہیں ہے کہ کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنا ممکن ہو تبھی ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ برطانیہ یورپ چین اور ایران سمیت اکثر ممالک میں جیل میں وائرس پھیلنے کی اطلاعات کنفرم ہوچکی ہیں اور حکومتیں مجبور ہوئیں کہ اس غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات اٹھائے جائیں۔ بڑی تعداد میں قیدیوں کی رہائی کے اعلانات سامنے آ ئے ہیں اس سارے منظرنامے کا اثر اگر ہم پاکستان میں دیکھیں تو بلوچستان صوبے کے علاؤہ باقی صوبوں میں کچھ سنجیدگی تو دکھائی دیتی ہے لیکن بلوچستان کا معاملہ حیران کن حد تک خطرناک دکھائی دیتا ہے۔ بہ ظاہر اسکا سبب ایک محکمے کے کرپٹ افسران ہیں جو کرپشن کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ، اس موقع پر بھی اس آگ سے کھیل رہے ہیں جو خود انہیں بھی جلا سکتی ہے۔ دنیا بھر میں غور و فکر ہورہی ہے قانونی پیچیدگیوں کو دور کرنے کی تاکہ قیدیوں کو حتی الامکان ریلیف مل سکے لیکن بلوچستان میں جیل محکمے کی جانب سے پچھلے چند ماہ میں لاتعداد ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جنکا مقصد اس ریلیف کو بھی ختم کرنا ہے جو پہلے سے حاصل تھے اسکی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے کبھی کبھار حکومت ایک روپے پٹرول کی قیمت بڑھا کر بعد میں پچیس پیسے کم کرنے کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے۔ بلوچستان میں قیدیوں کو امتحانات پاس کرنے پر معافیاں دی جاتی ہیں لیکن حال ہی میں آئی جی جیل خانہ جات کے نئے حکمنامے کے مطابق براہوی ادیب کا امتحان ختم کردیا گیا ، جو قیدی امتحانات دے چکے تھے انکی معافی منسوخ ہوگئی ۔ جبکہ اسکے علاوہ قیدیوں کے امتحانات کے رزلٹ کارڈ سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود آئی جی آفس میں پڑے ہیں اور آئی جی صرف انہی کے رزلٹ کارڈ پر سائن کررہا ہے معافی کے لیے جو رشوت دیں یا پھر جن کے پاس وزراء کی سفارش ہو۔ اس مسئلے کے سبب کویٹہ جیل میں قیدیوں نے احتجاج کیا جسکو میڈیا میں غلط تاثر دے کر انکے خلاف ظالمانہ آ پریشن کیا گیا ، انکا ضرورت کا سارا لوٹ لیا گیا ۔ کئی دہائیوں سے جیل میں یہ روٹین رہی تھی کہ قیدی اپنے خرچے پر اپنا کھانا تیار کرتے تھے جسکی وجہ جیل کی مضر صحت اور ناقص غذا تھی جو کسی طور بھی کھانے کے قابل نہ تھی۔ آپریشن میں قیدیوں کی کھانا پکانے کی سہولت ختم کردی گئی اور انہیں پابند کیا گیا کہ وہ وہی مضر صحت جیل کا ہی کھانا کھائیں۔ جبکہ جیل کے بااثر اور امیر قیدی پانچ سو اور ہزار روپے کے عوض گوشت وغیرہ منگوالیتے ہیں یہ رقم بطور لانے کی فیس ہوتی ہے علاؤہ گوشت کی قیمت کے۔ کیا اس طریقہ کار پر ایک عام آدمی جیل میں کھانے پینے کا خرچ اٹھا سکتا ہے؟ کرونا وائرس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان افراد کے اس وائرس میں مبتلا ہونے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں جو جسمانی طور ہر کمزور ہوں۔ اب جیل انتظامیہ قیدیوں کی خوراک کے معاملے میں ایسی غیر انسانی پابندی لگا کر کیا قیدیوں کو جسمانی طور پر کمزور اور بیمار بنانا چاہتی ہے تاکہ وائرس پھیل سکے ؟
یہ بھی وضاحت کرتے چلیں کہ جیل محکمے کے پاس قیدیوں کی سزا میں ردوبدل کرنے کے چور راستے بہت سے ہیں ، جن قیدیوں کو جرمانہ بھی ادا کرنا ہوتا ہے انکو جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں جو سزا کاٹنی ہوتی ہے وہ بھی کٹوانے کے بعد قیدیوں کو بتاتے ہیں کہ اب آپکی سزا پوری ہوچکی ہے اب آپ جرمانہ جمع کرواؤ ۔ وہ جو جرمانہ جمع کرواتا ہے وہ جیل محکمہ کے کرپٹ افسران کی جیب میں جاتا ہے اور کاغذات میں ظاہر کیا جاتا ہے کہ قیدی نے جرمانہ جمع نہ کیا بلکہ مزید قید کاٹی۔ اس مد میں کئی دہائیوں سے حکومت پاکستان کو اربوں روپوں کا نقصان پہنچایا جاچکا ہے۔کورونا وائرس کے حوالے سے بھی جیل محکمہ نے نہ صرف غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا بلکہ بعض معاملات میں تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ انکی بھرپور کوشش ہے کہ جیل میں وائرس پھیل جائے ۔
بلوچستان کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد جیلوں کی capacity سے زیادہ نہیں ہے لیکن محکمہ کامجرمانہ کردار ہے کہ بیرکوں میں مصنوعی overcrowding کی گئی ہے۔
سینٹرل جیل مچھ میں بھی اسوقت چار بارکیں جو قدرے صاف ستھری تھیں وہاں سے قیدیوں کو نکال کر پہلے سے فل دوسری بارکوں میں ٹھونس دیا گیا حالانکہ یہ بارکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں جگہ تنگ ہے باتھ روم ٹوٹے اور گندے ہیں ۔ ان اقدامات سے بہ ظاہر یہی لگتا ہے کہ جیل حکام نے کورونا وائرس کو قطعاً سنجیدگی سے نہیں لیا۔ تاحال کوئی بھی اہلکار ماسک نہیں لگاتا ۔

باوجود بارکیں خالی ہونے کے، قیدیوں کو چند بارکوں میں ٹھونس کر رکھنے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ جیل حکام قیدیوں کی زندگی اتنی مشکل بنانا چاہتے ہیں کہ وہ پھر چھوٹی چھوٹی سہولت کے لیے منہ مانگی رشوت دینے کو تیار ہوجائیں۔

امتحانات کی معافیاں جو کئی دہائیوں سے لگ رہی تھی اسے روکنے اور اسکے علاوہ بھی ممکنہ حکومتی اقدامات کے سبب ملنے والے ریلیف کو عملی طور پر ختم کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جیل حکام کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جیل میں قیدیوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہو، کیونکہ جتنے زیادہ قیدی ہونگے اتنا ہی انہیں فنڈ زیادہ ملے گا اور خوردبرد کے مواقع بھی زیادہ ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ ادارے نیب ، اور اعلی عدلیہ مذکورہ بالا معاملات کا نوٹس لے اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کروائے تاکہ جیلیں جنکا بنیادی مقصد قیدیوں کی اصلاح ہے عملی طور پر اصلاحی مراکز بن بھی سکیں ۔ ورنہ موجودہ حالات میں تو ایک قیدی یا تو ذہنی مریض بنے گا یا وہ منشیات کی لت میں مبتلا ہو جائے گا یا خدانخواستہ کوئی مجرم بن کر نکلے گا کیونکہ عمر قید کی سزا میں اسکا وقت ایسا گزرا ہوگا جس میں ایک ایک دن ذلت آمیز رویوں سے سامنا ہوا ہوگا ۔
دوسری طرف سنٹرل جیل ژوب
سے کچھ قیدیوں کو دور سنٹرل جیل مچھ بھیج دیا گیا جسمیں پشین۔ خانوزئی ۔ مسلم باغ ۔ قلعہ سیف اللہ ۔ لورالائی ۔سنجاوی ۔دوکی ۔ بارکھان ۔کولوں ۔رکنی اور ژوب کے قیدی شامل تھے قیدیوں کے اپنوں نے بتایا کہ سیکورٹی کی بنیاد پر ان قیدیوں کو 800 سو کلو میٹر دور سنٹرل جیل مچھ منتقل کیا گیا لیکن ایک آفیسر نے نام نا ظاہر کرنے پر بتایا کہ دراصل آئی جی جیلخانہ جات سپرنٹنڈنٹ سنٹرل جیل ژوب سے ماہانہ 50000 روپے مانگ رہا تھا جبکہ سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ قیدی کم ہے اتنی رقم میں نہیں دے سکتا
اسلئے قیدیوں کو مچھ شفٹ کیا گیا جبکہ اس وقت سنٹرل جیل ژوب کی تعداد 25/30 ہے اور جگہ 300 سو قیدیوں کی ہے
کورونا یا دیگر بیماری کیوجہ سے جاگیردار ۔امیر ۔ منسٹر کیلئے میڈیا بات کرسکتی ہے لیکن غریب کیلئے نہیں یہود نصاریٰ میں بھی یہی تھا کہ کسی شہزادے کیلئے سزا میں ترمیم کرتے اور غریب کو سزا دیتے تو آج وہ یہودی اور ہم مسلمان کیسے ؟

Leave a reply