کرپشن ،بدعنوانی، تحریر :ارم شہزادی

0
69

ہمارے زہن میں کرپشن کے معنی صرف وہ لوٹ مار ہے جو سیاست دان، بیوروکریٹ ،ججز، اعلیٰ عہدیداران ،میڈیا ہاوسز بڑے پیمانے پر کرتے ہیں جبکہ کرپشن تو وہ ناسور ہے جو ہماری جڑوں میں بیٹھ گیا ہے اور بدقسمتی سے ہم اسے کرپشن مانتے بھی نہیں ہیں ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ کرپشن کی یہ قسم سب سے زیادہ بری ہے جو ہم اپنے بچوں کے زہنوں میں ڈال رہے ہیں اور یہی بچے بڑے ہوکر مہا کرپٹ بنیں گے۔ یعنی ہم اپنے لیے خود جہنم کا ایندھن تیار کررہے ہیں۔ کرپشن صرف کروڑوں یا اربوں کی نہیں ہوتی ہر وہ پیسہ بنانے کا زریعہ جو ہمارے قابلیت سے مطابقت نہیں رکھتا وہ کرپشن کے زمرے میں آتا ہے ہے۔ کرپشن رشوت کی وہ شکل ہے جس میں رشوت کھانے والا اپنے لاکھوں میں کسی مجبور سے دس ہزار ہتھیا کر ڈال کر تمام پیسہ حرام کرنے والا ہے۔ہم سمجھتے ہیں انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والا کروڑوں کی کرپشن کرتا ہے تو صرف وہی کرپشن ہے جب کہ نچلے لیول پے بیٹھا رجسٹرار چند سو بھی کسی غریب سے لینے سے گریز نہیں کرتا ہے لیکن وہ اسے کرپشن نہیں مانتا جبکہ وہ اتنا ہی کرپٹ ہے جتنا کہ کروڑوں لینے والا بس پہنچ پہنچ کی بات ہے۔ دوکاندار مہنگائی کا شور کرتے ہوئے سامان کا نرخ زیادہ لیتا ہے جبکہ ناپ تول میں کمی کرتا ہے، سامان میں ملاوٹ کرتا ہے یہ بھی کرپشن ہے۔ اپنا کام ایمانداری سے نا کرنا لیکن تنخواہ پوری لینا یہ بھی کرپشن ہے۔ رشوت دے کر نوکری حاصل کرنا اور پھر اس نوکری سے جائز ناجائز زرائع استعمال کرکے پیسہ بنانا یا غریبوں کو لوٹنا یہ بھی کرپشن ہے۔

کسی کے گھر دیہاڑی پے لگنا اور آدھا دن چائے اور سگریٹ پینے میں ضائع کر کے پیسے پورے لینا یہ بھی کرپشن ہے۔ بچوں کو سکھا کر جھوٹ بول کر والد سے پیسے نکلوانا دہری کرپشن ہے ایک مالی اور اخلاقی۔ مالی کرپشن کا تو حساب ہوگا ہی لیکن اس میں کچھ لوگوں کو رعایت بھی مل جائے گی کہ اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے اور سربراہ اتنے پیسے نہیں دیتا تھا لیکن جھوٹ سکھانے کا گناہ قبر تک ساتھ جائے گا۔ لاکھوں کمانے والے بھی اور کی تلاش میں اور ہزاروں کمانے والے بھی لیکن پوری پھر بھی نہیں پڑ رہی کیونکہ برکت ہی نہیں ہے اور ناجائز طریقے سے کیا گیا اکٹھا پیسہ نا تو سکون دے سکتا ہے اور ن ہی برکت۔ اس کرپشن اور ناجائز زرائع سے کمانے کی ایک وجہ اسائشات کو ضروریات بنالینا بھی ہے۔ دیکھا دیکھا ایک دوسرے سے اگے نکلنے کی دوڑ میں اخلاقیات کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کھانے کی چیز میں ملاوٹ، پینے کی چیزمیں ملاوٹ، پہننے کی چیز، میں ملاوٹ یہاں تک کہ دوائیوں میں ملاوٹ۔ ہر طریقے سے کمانے والے جب کہتے ہیں نا کہ مہنگائی بہت ہے ہورا نہیں ہوتا خرچہ ہاتھ تنگ ہے تو اس کا مطلب واقعی یہ نہیں کہ یہ سب ہے اس کا مطلب یہ کہ کمائی میں برکت نہیں ہے۔ اور جس کمائی میں برکت نا ہو وہ چاہے ہزاروں میں ہو، لاکھوں میں ہو، یا پھر کروڑوں میں انسان رہتا ہمیشہ روتا ہی ہے۔۔ معاشرے کی بدقسمتی دیکھیں کہ ہم پیسوں کی کرپشن پے بات کرتے ہیں لیکن اخلاق کی کرپشن پے بات نہیں کرتے ہم نفس کی کرپشن پے بات نہیں کرتے ہم محبت میں دھوکہ دینے والے کی جذباتی کرپشن کی بات نہیں کرتے، ہم رشتوں کے تقدس میں ہونے والی کرپشن کی بات نہیں کرتے ایسے ہی تو نہیں سارا معاشرہ زوال کا شکار۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے رزقمیں برکت ہو ہماری نسل پرسکون ہو تو انہیں صرف اسائشات پر نا لگائیں بلکہ انکی اخلاقی تربیت کریں انہیں تھوڑا کھلا دیں سستا پہنا دیں لیکن انکی تربیت اور صحبت خراب نا ہونے دیں کیونکہ ممکن ہی نہیں کہ حرام رزق پے پلنے والا حلال کام کرے یا آخلاقی طور پر مضبوط ہو۔ بچوں کو وقت دیں صرف پیسہ نہیں۔ کرپشن کو ایک برائی کے طور پر اپنے بچوں کو پڑھائیں سکھائیں کیونکہ یہ آپ کا صدقہ جاریہ بھی ہیں اور گناہ جاریہ بھی۔
جزاک اللہ
@irumrae

Leave a reply