کرپشن کے ماسٹر مائنڈ عمران خان کا آرمی چیف بارے پروپیگنڈہ بے نقاب
لاہور:اگرآرمی چیف چاہتےتوکرپٹ لوگ کبھی بھی معصوم عن الخطا نہ ہوتے:عمران خان کا یہ دعویٰ غلط ہے:اطلاعات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کی طرف سے پاک فوج کے سربراہ پر سنگین الزامات کے جوابات بھی آنے شروع ہوگئے ہںَ اس حوالے سے عمران خان کے الزامات کے جوابات تین حصوں پر مشتمل ہیں
پہلا جواب یہ ہے کہ عمران خان کا یہ کہنا کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ کرپشن کو برا نہیں سمجھتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر وہ بُرا نہیں سمجھتے تھے تو پھر پاک فوج میں بڑے پیمانے پر کورٹ مارشل کیا گیا اور بڑے بڑے اعلیٰ افسران کو بھی سخت سزائیں کیوں دی گئیں؟
اس کا واضح اور حقیقت پسندانہ جواب یہ ہے کہ آرمی چیف نے پاک فوج میں پاک فوج کے رولز اور ریگولیشنز کی خلاف ورزی کرنے پرسخت سزائیں دیں تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کرپائے
عمران خان کے الزامات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب ڈی جی آئی ایس آئی جنرل عاصم منیربنی گالا سے کرپشن کے بڑے ثبوت لائے تھے تو عمران خآں نے ان کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے زبردستی ہٹآ دیا تھا ،جہانگیرخان ترین جب ساتھ تھے تو وہ بہت اچھے تھے مگرجب چھوڑ دیا تواس کے خلاف غلط بیانی اورمختلف قسم کے الزامات لگا ئے گئے،ایسے ہی شوکت ترین کی 20 ارب کی کرپشن نظرانداز کردی گئی اور ایسے ہی شہزاد اکبر اور فرح گوگی کی کرپشن کے بھی ثبوت تھے توعمران خان کو یہ بات پسند نہ آئی اور انہوں نے جنرل عاصم منیرکو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹآ دیا ،
عمران خان کی طرف سے تیسرا الزام کہ آرمی چیف علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پرزبردستی بٹھانا چاہتے تھے ، آرمی چیف کی اس خواہش کے برعکس عثمان بزدارکوبرقرار رکھا گیا جس کی وجہ سے آرمی چیف ناراض ہوگئے، عمران خان کا یہ دعویٰ بھی غلط معلوم ہوتاہے ، اس کا جواب یہ ہے کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے آرمی چیف نے مشاورت کی توعمران خان نے ہی تو دو نام پیش کیے تھے ، ان میں سے ایک عثمان بزدار جبکہ دوسرے علیم خان تھے ، عمران خان کے پیش کردہ ناموں میں سے اگرآرمی چیف نے علیم خان کوپنجاب کا وزیراعلیٰ بننے پررضا مندی ظاہر کی تو یہ تو کوئی غلط بات نہیں تھی ، عمران خان کی پارٹی کا ہی اہم رکن تھا اور عمران خان نے ہی پہلے علیم خان کووزارت اعلیٰ کی دوڑ کی فہرست میں شامل کیا تھا