عدالت جاتے ہوئے بھی عمران خان پولیس والے ساتھ لے کر جاتے ہیں، آئی جی اسلام آباد

0
28

عدالت جاتے ہوئے بھی عمران خان پولیس والے ساتھ لے کر جاتے ہیں، آئی جی اسلام آباد

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا

سینیٹرز اعظم نذیر تارڑ، مولا بخش چانڈیو، فوزیہ ارشد، سیف اللّہ ابڑو، رانا مقبول احمد، شہادت اعوان، کامل علی آغا، سرفراز احمد بگٹی کے علاوہ سینیٹرز اعجاز احمد چودھری، فیصل جاوید، زیشان خانزادہ، اعظم خان سواتی نے خصوصی طور پر کمیٹی اجلاس میں شرکت کی-آئی جی پی اسلام آباد، چیف کمشنر اسلام آباد بھی کمیٹی اجلاس میں شریک ہوئے-چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے وزیر داخلہ اور سیکریٹری داخلہ کی عدم موجودگی پر تشویش اور برہمی کا اظہار کیا اور کہ کہ وزیرداخلہ اور سیکریٹری داخلہ کو کمیٹی میں شرکت کیلئے خطوط ارسال کئے گئے لیکن اس کے با وجود وہ کمیٹی میں پیش نا ہوئے-

سابق وزیراعظم عمران خان کی سیکیورٹی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ عمران خان ایک عالمی لیڈر ہے، اسلاموفوبیا کے مسئلے پر انہوں نے پوری دنیا میں ہر پلیٹ پر بات کی سب نے ان کی کاوشوں کو سراہا ہے-انہوں نے بتایا کہ عمران خان جب اسلام کی بات کرتی ہے تو پوری دنیا اس کو اپنا لیڈر سمجھتی ہے-انہوں نے امریکہ کو “ابسولوٹلی ناٹ” کہا، امن کا ساتھ دینے اور کشیدگی سے دور رہنے کی بات کی یہ ایسی باتیں ہیں جس پر باہر کے ممالک بھی ناراض ہیں-چیئرمین کمیٹی نے مزید کہا کہ سیکیورٹی ایجنسیز اور پولیس نے خود کہا ہے کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے تو ایسی صورتحال میں ان سے سیکیورٹی واپس لینا ناجائز اور غیرمناسب ہے-چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ عمران خان کے پاس جو پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز تھے ان کو کیوں ہٹایا گیا؟ ان کا سیکیورٹی لائسنس ناجائز طریقے سے واپس لیا گیا جو غیرمناسب ہے-انہوں نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان سیکیورٹی کے اہلکار جو عمران خان کی سیکیورٹی مامور تھے ان کو واپس لیا گیا-سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ شہید بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی غلط ہوا اور اب عمران خان کے ساتھ بھی غلط ہو رہا ہے-

عمران خان کی سیکیورٹی واپس لینے کے حوالے سے کمیٹی کو بریفگ دیتے ہوئے آئی جی پی اسلام آباد نے بتایا کہ اس وقت سابق وزیراعظم عمران کی سیکیورٹی پر دو پرائیویٹ کمپنیز کے علاوہ خیبرپختونخوا، اسلام آباد، گلگت بلتستان، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور رینجرز کے تقریبا 266 اہلکارمامور ہیں اور یہ سب ایک ہی کمانڈ کے انڈر کام کرتے ہیں- سابق وزیر اعظم عمران خان کی سیکیورٹی پر تنخواہوں سمیت تقریبا سالانہ 24 کروڑ کا خرچہ آرہا ہے-سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی سیکیورٹی پر 2200 اہلکار مامور ہوتے تھے جن کا خرچہ سالانہ 4.5 ارب روپے ہوتا تھا-کمیٹی کو بتایا گیا کہ دو پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیز کے لائسنس معمولی غلطی کے باعث منسوخ کئے گئے لیکن وہ ابھی بھی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں- چیف کمشنر نے بتایا کہ لائسنس منسوخ کرنے کا اختیار وزارت داخلہ کے پاس ہوتا ہے-ان کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ چاہتی ہے کہ ان دو پرائیویٹ کمپنیز کو تبدیل کردیا جائے-

عمران خان سمیت پوری پی ٹی آئی کو نااھل قرار دے کر پی ٹی آئی کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کا مطالبہ 

ممنوعہ فنڈنگ کیس،الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنا دیا،تحریک انصاف "مجرم” قرار’

،عمرا ن خان لوگوں کو چور اور ڈاکو کہہ کے بلاتے تھے، فیصلے نے ثابت کر دیا، عمران خان کے ذاتی مفادات تھے

اکبر ایس بابر سچا اور عمران خان جھوٹا ثابت ہوگیا،چوھدری شجاعت

عمران خان چوری کے مرتکب پارٹی سربراہی سے مستعفی ہونا چاہیے،عطا تارڑ

اس سے پہلے کمیٹی کے آغاز میں پاکستان میں موجودہ سیلابی صورتحال اور اس کے نتیجے میں متاثرین اور جاں بحق افراد کیلئے خصوصی دعا کی گئی-سینیٹر اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزادوسیم نے کہا کہ بہت مشکل سے عمران خان جیسے لیڈرز پیدا ہوتے ہیں، بے نظیر کی شہادت بھی بڑا حادثہ تھا،عمران خان کی شکل میں وفاقی لیڈر موجود ہے-وہ سابق وزیر اعظم نہیں بلکہ لیڈر ہیں، لیڈر کا نقصان قوم کا نقصان ہوتا ہے- انہوں نے بتایا کہ کل مریم نواز سیلاب زدگان کے پاس جا رہی تھی تو پروٹوکول میں 62 گاڑیاں تھیں-عمران خان کی سیکیورٹی واپس لینا تشویش ناک ہے-

سینیٹر کامل علی آغا کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی سیکیورٹی کا معاملہ حساس ہے اس کو سنجیدگی سے لینا چاہئے-بےنظیر کو بھی سیکیورٹی تھرڈ تھیں، نام بھی سامنے آگئے تھے، اس معاملے کو پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر دیکھنا چاہئے-نوازشریف کوسیکیورٹی ملتی رہی اس لئے انہوں نےاعتراض نہیں کیا-انہوں نے بتایا کہ آج وزیر داخلہ کو لازمی کمیٹی اجلاس میں آنا چاہئے تھا کیونکہ الزامات ہیں کہ عمران خان کی پرائیویٹ سیکیورٹی کو بھی ہٹا دیا گیا ہے وہ ایک بڑی جماعت کے لیڈر ہیں-اگر وزارت داخلہ کےحکام کمیٹی اجلاس میں نہیں آئے تو اس سے تو یہ تاثر جائے گا کہ یہ عمران خان کو مروانا چاہتے ہیں-

سینیٹراعظم خان سواتی نےکہا کہ ہائی کورٹ میں بھی کہا گیا کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے-ان حالات کے اندر ہم سب نےاپنا فرض ادا کرنا ہے اور اس کمیٹی کی آواز موثر انداز سے باہرجانی چاہئے،عمران خان کی سیکیورٹی ان کی شخصیت کے مطابق نہیں ہے، دشمن کافی زیادہ ہیں، کمیٹی فیصلے میں عمران خان کو لاحق خطرات کو سامنے رکھا جائے-سینیٹر مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ ہم عمران خان کی سلامتی کے دشمن نہیں ہیں ہم ان میں نہیں جنہوں نے بی بی اور بھٹو کی شہادت پر مٹھائیاں تقسیم کیں-سینیٹر اور سینیٹ میں قائد ایوان اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سیلاب زدگان کی فکر نہیں لیکن عمران خان کے جلسے ہو رہے ہیں اور گالیاں دی جا رہی ہیں-انہوں نے کہا کہ یہ فارم اس قسم کے معاملات پر بحث کرنے کیلئے نہیں ہے-

آئی جی پی اسلام آباد نے کہا کہ سابق وزیراعظم کی سیکیورٹی کا معاملہ اہم ہے-کوئی بھی سابق وزیراعظم ہو ان کی سیکیورٹی کا معاملہ سیاسی نہیں ہونا چاہئے-معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے میڈیا میں اس حوالے سے باتیں نہیں ہونی چاہئے-ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی مہیا کرنے کا ایک طریقہ ہے-ایجنسیز بھی اس عمل میں شریک ہوتی ہیں-سب قانون کے مطابق ہوتا ہے-ہماری گزارش ہوتی ہے کہ ہم سے بھی تعاون کیا جائے-عمران خان کو بھی وہی طریقہ کار کے مطابق سیکیورٹی دی جا رہی ہے-

Leave a reply