کزن میرج، موروثی بیماریاں، اسلام کی روشنی میں جائزہ
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفیٰ بڈانی
برطانیہ میں فرسٹ کزنز کی شادی پر پابندی کا مجوزہ بل آج دارالعوام میں پیش کیا جائے گا۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو برطانیہ میں فرسٹ کزنز کے درمیان شادی پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ اس بل کا مقصد ان شادیوں سے جینیاتی بیماریوں کے خطرات کو کم کرنا ہے، کیونکہ طبی ماہرین کے مطابق کزن میرجز میں جینیاتی خرابی، جینومک ڈس آرڈر اور جینیاتی میوٹیشن کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ان بیماریوں کی وجہ سے تھیلیسیمیا، مرگی، گونگا پن اور بہرہ پن جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں بھی کزن میرجز کا رجحان بہت زیادہ ہے، جس کی وجہ سے جینیاتی بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ماہرین کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں کزن میرجز کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جس سے جینیاتی بیماریوں کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی شادیوں میں جینیاتی ہم آہنگی زیادہ ہوتی ہے، جس کے باعث بیماریوں کے منتقل ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اسلام میں کزن میرج کو جائز سمجھا گیا ہے بشرطیکہ دونوں افراد کی رضا مندی ہو اور شریعت کے دیگر اصولوں کی پیروی کی جائے۔ تاہم اسلام میں صحت کے حوالے سے بھی اہم ہدایات دی گئی ہیں۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ "تم میں سے کسی بھی شخص کو بیماری کے بارے میں کسی دوسرے شخص کو منتقل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی” (بخاری)۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کسی خاندان میں جینیاتی بیماریوں کا خطرہ ہو تو ایسی شادیوں سے بچنا ضروری ہو سکتا ہے تاکہ بیماریوں کا پھیلاؤ نہ ہو۔
اسلام میں صحت کو بڑی نعمت سمجھا گیا ہے اور اس کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر کسی شادی میں جینیاتی بیماریوں کا خطرہ ہو تو ایسی شادیوں سے بچنا بہتر ہو سکتا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کی صحت پر منفی اثرات نہ ہوں۔ شریعت میں بھی اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انسان کو اپنے جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے اور اگر کسی شادی کے نتیجے میں بیماریوں کا خطرہ ہو تو اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔
پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں جہاں کزن میرجز ایک عام بات ہے،ہم مسلمان ہیں اور ہماری زندگی کے تمام معاملات میں ہمیں کتاب و سنت سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ مغربی معاشرتی نظریات کو بغیر سوچے سمجھے اپنالیں اور ان کی مخالفت بھی اس طرح کریں جیسے وہ کسی نہ کسی بات کے خلاف ہوں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مغربی ممالک میں کزن میرج پر قانونی پابندی ہے اور ان کے مطابق اس سے بیماریوں کا خطرہ ہوتا ہے۔ تاہم ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اللہ نے جو چیزیں حلال کی ہیں وہ انسانوں کے لیے نقصان دہ نہیں ہو سکتیں اور جو چیزیں حرام کی گئی ہیں وہ ہمارے لیے ہر حال میں نقصان دہ ہوتی ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ”اے نبی! ہم نے تمہارے لیے حلال کر دیں تمہاری وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کئے ہیں اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمہاری ملکیت میں ہیں اور تمہاری وہ چچا زاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے۔ (الاحزاب: ۵۰)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کزن میرج کی زد میں جتنے بھی رشتے آتے ہیں ان کا ذکر کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ وہ تمہارے لیے حلال ہیں۔ اگر ان شادیوں میں طبی طور پر کوئی خرابی ہوتی تو اللہ اپنے نبی ﷺ کو اس سے منع کر دیتے اور امت پر بھی پابندی عائد کر دیتے۔ لیکن اسلام نے ان رشتہ داریوں کو حلال قرار دیا ہے اور جن میں اخلاقی یا روحانی مسائل ہیں ان پر پابندی عائد کی ہے۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ نے پھوپھی اور بھتیجی، خالہ اور بھانجی کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنا حرام قرار دیا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے: "اور یہ کہ تم دو بہنوں کو جمع نہ کرو” (النساء: 23)
اسی طرح بیوی اور اس کی پھوپھی یا پھر بیوی اور اس کی خالہ کو ایک ہی نکاح میں جمع کرنا بھی حرام ہے۔ اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم عورت اور اس کی پھوپھو کے مابین جمع نہ کرو اور نہ ہی عورت اور اس کی خالہ کو ایک نکاح میں جمع کرو” (متفق علیہ)
کزن میرج کی وجہ سے جو خدشات ظاہر کیے جاتے ہیں ان کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ بعض موروثی امراض والدین سے اولاد میں منتقل ہو جائیں لیکن یہ ضروری نہیں۔ اگر ایک نسل کسی مرض میں مبتلا رہی ہے تو اسی خاندان کی کئی نسلیں اس مرض سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔