کوڈ 19 اور سائبرسیکیوریٹی پاکستان کیلئے ایک ڈراؤنا خواب تحریر: شہزاد احمد

0
36

جب کووڈ- 2019،19میں سر اٹھانے لگا اور اس کے بعد 2020 میں تقریبا تمام شعبہ ہائے زندگی متاثر ہوئے۔ لوگوں کی ملازمتیں ختم ہوگئیں، کمپنیوں کو اپنی پیداوار بند کرنا پڑا اور اسکول بند کردیئے گئے۔
لیکن اس وسطی وقت میں سائبر سیکیورٹی حملے وہ واحد حقیقت تھی جو پوری دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلنے سے بڑ تھی گئ۔
اس مہلک وبا کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوگئے، اور ان کی سرگرمیاں صرف انٹرنیٹ اور کمپیوٹر تک ہی محدود ہوگئ۔ اس سے سائبر جرائم پیشہ افراد کو رازداری کی خلاف ورزی کرنے اور اسے اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے کا موقع مل گیا ۔ قرنطین کے دوران، صارفین اپنے موبائل فونز اور کمپیوٹرز میں ایپس ڈاؤن لوڈ کر رہے ہیں اور ایپ کو اپنے موبائل ڈیٹا تک رسائی فراہم کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ چونکہ آج معلوماتی جنگ کا دور ہے، لہذا کوئی بھی ادارہ یا ریاست غیر اعلانیہ انہیں دیئے گئے ڈیٹا سے فائدہ اٹھاسکتی ہے، یہ تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے، اور لوگوں کے ڈیٹا کو ذاتی اور قومی سلامتی کو بھی نقصان پہنچانے کے لئے غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں گوگل نے لاکھوں پشنگ اور میلویئر گھوٹالوں سے متعلق اطلاع دی ہے۔
چونکہ پاکستان ایک ترقی پذیر
ملک ہے اور کوویڈ 19 کی غیر یقینی صورتحال میں، سائبرسیکیوریٹی کے خطرات ایک مکمل ڈراؤنہ خواب ہے۔
تمام تعلیم، کاروبار اور معیشتیں تیزی سے ڈیجیٹل پلیٹ فارم اور ٹیکنالوجیز پر منحصر ہوتی جارہی ہیں۔ روایتی معیشتوں کے کام کرنے کے طریقے مکمل طور پر تبدیل ہو رہے ہیں۔
عالمی نیٹ ورکنگ پر کوڈ 19 کے اثرات کی اطلاعات کے مطابق، امریکہ میں ٹیلی مواصلات کی ایپلی کیشنز (جیسے زوم، اسکائپ، وغیرہ) میں 300 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ میں گیمنگ میں 400٪ اضافہ ہوا ہے۔
زوم سے ڈیٹا ٹریفک میں 828٪ اضافہ اور تھائی لینڈ میں اسکائپ ویڈیو کانفرنسنگ ایپلی کیشنز میں 215٪ اضافے۔
سیٹیلائٹ آپریٹرز کے مشاہدہ کے مطابق، پورے یورپ اور امریکہ میں خاص طور پر دیہی اور دور دراز علاقوں میں ڈیٹا ٹریفک میں 15 سے 70 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
یہ "ورک فرام ہوم” تنظیموں، طلباء، اور اساتذہ کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج تھا جو جدید مواصلاتی اوزار سے واقف نہیں تھے۔ غیرخفیہ کردہ مواصلات کی وجہ سے بہت سے زوم اکاؤنٹس اس وبائی مرض کے دوران ہیک ہو گئے
یہ بھی اطلاعات بھی ملتی رہی کہ تعلیمی زوم سیشن کے دوران مشتبہ افراد سیشن میں شامل ہوجاتے ہیں اور بہت سی رکاوٹوں کا باعث بنتے ہیں۔
ملازمین پر سوشل انجینئرنگ کے حملوں کا زیادہ امکان تھا اور حملے ہوۓ بھی کیونکہ حملہ آور ملازمین کے بڑھتے ہوئے کام کا بوجھ، انکے نیۓ کام کرنے کے طریقوں سے نا شناسی کا غلط فایدہ اٹھا تے تھے۔
پی ٹی اے کے مطابق پاکستان میں موبائل ٹریفک میں تقریبا 22 فیصد اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر ایسے علاقوں میں جہاں محدود فکسڈ نیٹ ورک ہیں۔
لوگ روایتی سے او ٹی ٹی سروس (اوور دی ٹاپ میڈیا) میں منتقل ہورہے ہیں۔
پاکستان میں جب تمام طلباء اور اساتذہ کی نظریں ایچ ای سی (ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان) کی طرف تھیں، کچھ آن لائن کلاسوں کی منسوخی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ کچھ نے مشورہ دیا کہ پورے ملک میں انٹرنیٹ کی دستیابی کو یقینی بنائیں اور پھر آن لائن کلاسیں دوبارہ شروع کریں، اور اسی اثنا میں، ایچ ای سی کی سرکاری ویب سائٹ ہیک ہوگئی-
پاکستان میں جب ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا تو لوگ بے روزگار ہو گئے تھے اور انہیں پیسوں کی ضرورت تھی ان میں سے کچھ نے آن لائن کام کا رخ کیا۔
صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لئے اسکیمرز نے اپبی منصوبہ بندی کو بڑھاوا دیا، انہوں پاکستانی موبائل نمبروں کا ایک ڈیٹا بیس تیار کیا اور لوگوں پر ایک سوشل انجینئرنگ تکنیک کا استعمال کیا۔ اس وقت حکومت پاکستان نے روزانہ مزدوری کرنے والوں میں 1200 روپے تقسیم کرنے کے لئے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا۔
اسکیمرز نے اسی پلیٹ فارم کا استعمال کیا اور پاکستان کے اندر لاکھوں دھوکے کے پیغامات بھیجے کہ ”آپ احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے لیے اہل ہیں اور اپنے پیسے وصول کرنے کے لیے ہم سے رابطہ کرے۔ ان سے ذاتی معلومات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور موبائل لوڈ کی شکل میں پیسے بھی مانگے جا رہے ہیں۔ ہزاروں افراد اس دھوکے کا شکار ہوچکے ہیں
اسکیمرز نے یہی تکنیک (بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام)، جیتو پاکستان (پاکستان میں مشہور ٹی وی شو) کا رکن بنک یا ایزی پیسہ کے ممبر ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے بھی استعمال کیا،
یہاں تک کہ ایف آئی اے، پی ٹی اے، اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے ملازمین کو بھی اسی طرح کے دھوکے کے پیغامات موصول ہوتے ہیں۔
لیکن یہ کھیل اب بھی جاری ہے اور رک نہیں رہا، ہر روز ہزاروں افراد کو یہ دھوکے کے پیغامات موصول ہوتے ہیں اور ان میں سے سیکڑوں افراد اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔
نہ صرف کوڈ 19 کی وجہ سے بلکہ ہمارے خطے اور پڑوسی مماللک کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے اب اور مستقبل میں دنیا کی نگاہیں پاکستان کی طرف ہیں۔
جیسے ہی دنیا ٹیکنالوجی اور سائبرسیکیوریٹی کی دوڑ میں آگے بڑھ رہی ہے پاکستان میں سائبرسیکیوریٹی آگہی کا فقدان ہے
حکومت پاکستان کو سائبر کرائمینلز کے خلاف مناسب کاروائیاں کرنے اور مقامی زبانوں میں سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر سائبرسیکیوریٹی بیداری مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
سائبر خطرات سے نمٹنے کے لئے پاکستان کے پاس ضروری قانون سازی نہیں ہے۔ پاکستان نے 2016 میں ایک سائبر کرائم قانون کی منظوری دی، جسے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ 2016 کا عنوان دیا گیا تھا، تاہم سائبر سیکیورٹی کے بہت سے اہم شعبوں پر توجہ نہیں دی گئی ۔ پاکستان میں سائبر سیکیورٹی کے مزید سخت قوانین کی ضرورت ہے جن میں کاروباری اداروں اور تنظیموں کو اپنے کمپیوٹر سسٹم اور حملوں کے خلاف ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہو۔ سرکاری اداروں، توانائی کی صنعت کے ساتھ ساتھ صحت کی دیکھ بھال اور مالی تنظیموں کو بھی قوانین کے تحت اپنے کمپیوٹر سسٹم اور معلومات کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہو۔
by Shehzad Ahmad
Follow me on Twitter @Imshehzadahmad

Leave a reply