کووڈ اور حالات حاضرہ۔ تحریر: طلعت کاشف سلام

0
31

کووڈ نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ چھوٹے ملکوں کے ساتھ بڑے بڑے ترقی یافتہ ملک تک مسائل سے دوچار ہیں۔

اس وبا نے نہ امیر دیکھا نہ غریب ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ پوری دنیا اس وقت معالی بحران سے گزر رھی ہے۔ بڑے ممالک نے تو پھر بھی کسی حد تک سروائیو کر لیا لیکن اکثر چھوٹے ممالک کی اکانومی مکمل طور پر تباہ ھوگئی۔ کووڈ کی پہلی لہر کے بعد یہ سمجھا گیا کے اب سب ٹھیک ھو جائے گا۔ لیکن ایک کے بعد دوسری لہر، پھر تیسی لہر اور پھر چوتھی لہر بھی آگئی۔ اس وقت کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کے کووڈ رکے گا یا یہ سلسلہ اسی طرح ھمارے ساتھ ساری زندگی چلتا رھے گا۔اس وائرس نے کئی زندگیاں نگل لیں۔ مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ جانی نقصان بھی بہت ھوا۔

کئی ڈاکٹرز اس ریسرچ میں مصروف ہیں کے کسی طرح کووڈ اور اسکے بعد دوسرے وائرس جیسے کے ڈیلٹا ویرینٹ کا کوئی مستقل حل نکالا جائے۔ لیکن ابھی تک وہ اس کو روکنے میں یا حل نکالنے میں ناکام ہی رھے ہیں۔ ویکسین سے اس کا پھیلاو کم ضرور ھوا ہے لیکن رکا نہیں ہے۔ سننے میں آرھا کے سردیوں میں کووڈ کی پانچویں لہر پھر زور پکڑے گی۔ اگر ھم یورپی ممالک کو دیکھیں تو وھاں پر گورنمنٹ کے ساتھ ساتھ عوام بھی بھرپور کوشش کررھی ہے کے کسی طرح حالات ٹھیک ھوں۔ چھوٹے بزنس کے ساتھ ساتھ کئی بڑے بڑے بزنس مکمل طور پر تباہ ھو گئے۔ آئیرلاین انڈسٹری بہت خسارے میں رھی۔ سیاحت کا شعبہ مکمل طور پر تباہ ھو گیا۔گاڑیوں کی انڈسٹری بہت شدید نقصان کا شکار ھوئی۔

یہاں میں آپکو ایک چھوٹی سی مثال دیتی ہوں۔۔۔

دنیا کا سب سے لمبا لاک ڈاون کینیڈا میں ھوا۔ کووڈ میں کینیڈا جب بند ھوا تو ساری گاڑی مینوفیکچرنگ رک گئی۔ کینیڈا چائنہ سے اسپیڈومیٹر کی چپ منگواتا تھا۔ جب مینوفیکچرنگ رکی تو کینیڈا نے چائنہ سے چپ لینی بند کردیں۔ کیونکہ کام ہی بند تھا تو چپ لے کر کیا کرتے۔ دوسری طرف چائنہ کو بہت نقصان ھوا کیونکہ وہ چپ ایکسپورٹ نہیں کر پا رھے تھے۔ بہرحال چائنہ نے تو کوشش کر کے دوسرے ممالک سے کانٹریکٹ لے لیا۔ اور اپنا مال دوسرے ممالک کو دینے لگے۔ لیکن جب کینیڈا کھلا تو انہوں نے چائنہ سے رابطہ کیا تاکہ اسپیڈومیٹر کی چپ منگوائی جاسکے۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ھو چکی تھی۔ کیونکہ چائنہ نے کسی اور ملک کو مال سپلائی کرنا شروع کردیا تھا۔ اور اب کینیڈا کی صورتحال یہ ہے کے ساری کمپنیوں میں ھزاروں کی تعداد میں گاڑیاں تیار کھڑی ہیں۔ لیکن کسی کے پاس بھی اسپیڈومیٹر چپ نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے گاڑی مینوفیکچر کرنے والی انڈسٹری بہت زیادہ نقصان کا شکار ھو رھی۔

پہلے ہی لاکھوں کی تعداد میں لوگ بےروزگار ھوئے اور اب مزید ھونگے۔لیکن یہاں کی گورنمنٹ اپنی پوری کوشش کررھی کے کسی طرح ان سب نقصانات کو پورا کیا جاسکے۔ نہ صرف گورنمنٹ ساتھ سارے ادارے اور عوام بھی پہلے سے بڑھ کے کام کررھی ہے۔ جہاں پہلے 8 گھنٹے کام کیا جاتا تھا وھاں اب دس سے بارہ گھنٹے کرتے ہیں۔ اس وقت اگر حالات اچھے دیکھنا چاہتے ہیں تو سارہ ملبہ صرف حکومت پر نہیں ڈالا جانا چاہیے۔ بحیثیت قوم سب کو ساتھ دینا چاہئے تب ہی کوئی راہ نکل سکتی ہے۔

دنیا میں کونسا ایسا ملک ھوگا جو عوام کو پریشان دیکھ کے خوش ھوگی! کوئی نہیں نہ۔۔
یہ بات ھم سب کو سمجھنی چاہئے کے اس وقت حکومت کو ھمارے ساتھ کی ضرورت ہے اور اگر اپنا ملک بچانا ہے تو سب نے مل کے کام کرنا ہے، کیونکہ اسی میں ھم سب کا فائدہ ہے ھم سب کی بھلائی ہے۔اگر ویکسین نہیں لگی ہے تو لازمی لگوائیں اور ماسک لازمی پہنیں۔ کیونکہ اس وقت یہی سب سے بڑی احتیاطی تدبیر ہے۔ کیونکہ اس وقت کوئی بھی ملک مزید لاک ڈاون برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ لاک ڈاون سے نہ صرف ھمارا بلکہ پورے ملک کا نقصان ھوتا ہے۔ اس لیے احتیاط کریں اور تندرست رہیں۔

@alwaystalat

Leave a reply