"سی پیک اور پاک چین دوستی ” تحریر:لاریب اطہر

0
88

پاکستان اور چین بیسیوں صدی کے درمیان وجود میں آئے اور تب سے ہی ان دونوں میں آپسی تعلقات استوار ہوئے جو کہ مختلف ادوار کے داؤ پیچ دیکھتے دکھاتے آج اپنے عروج کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ پاکستان اور چین میں ڈپلومیٹک تعلقات تو انیس سو اکاون میں ہی قائم ہو گئے تھے لیکن تب دونوں ممالک اک دوسرے کے ساتھ اتنا ہم آہنگ نہ تھے جس کی وجہ سے ابتدائی سالوں میں دونوں ممالک کے درمیان کوئی خاص پیش رفت نہ ہوئی۔ دوسری جانب اک بڑی وجہ پاکستان کے مغرب کے ساتھ تعلقات بھی تھے جن کی وجہ سے چین کے ساتھ ابتدائی اک دو عشروں میں بہترین تعلقات استوار نہ ہو سکے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں تھا کہ دونوں ممالک نے اک دوسرے کو مکمل نظرانداز کیا
کیونکہ انیس سو چھپن میں حسین شہید سہروردی نے پاکستان کا وزیر اعظم ہونے کے ناطے چین کا دورہ کیا اور اسی سال چین کے وزیر اعظم بھی پاکستان کے دورے پر آئے۔ امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے کی وجہ سے پاکستان اور چین میں سرد مہری تھی لیکن پھرایوب خان نے بھی صدر پاکستان کی حثیت سے چین کا دورہ کیا۔
انیس سو باسٹھ کی انڈیااور چین کے درمیان جنگ کے بعد پاکستان اور چین میں نزدیکیاں بڑھنے لگیں اور اس سے اگلے سال انیس سو تریسٹھ میں دونوں ممالک کے درمیان باؤنڈری ایگریمنٹ ہوا اور مشترکہ بارڈر کی نشاندھی کی گئی۔ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات میں اصل موڑ تب آیا جب پاکستان نے انڈیا کے ساتھ 1965 اور 1971 کی جنگیں لڑیں اور ہمارے نام نہاد حواری نے چالبازی کے ساتھ دھوکہ دیا اور چین نے ہماری مدد کی اور اس کے ساتھ ہی سرد مہری والے تعلقات گرمجوشی میں تبدیل ہوتے گئے۔
اگر پاکستانی حکمرانوں کے حوالے سے بات کی جائے تو شاید ذوالفقار علی بھٹو پہلا پاکستانی حکمران تھا جس نے چین کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کی داغ بیل ڈالی۔ بھٹو نے اپنے دور حکومت میں تین چار بار چین کا دورہ کیا بدلے میں چین نے بھی گرمجوشی دکھائی تو دن بدن تعلقات گہرے ہوتے چلے گئے کہ پھر چاہے سیاسی تعلقات ہوں ،ثقافتی، معاشی ہوں معاشرتی تعلقات، فوجی تعلقات ہوں یا ایٹمی پروگرام سب میں پاکستان اور چین ایسے جڑے جیسے اک ہی سکے کے دو رخ ہوں۔ جہاں پاکستان نے چین کی سلامتی کونسل کی سیٹ پر سپورٹ کیا تو بدلے میں چین نے بھی کشمیر کاز پر پاکستان کا ساتھ دیا۔

ضیاء الحق بھی ایوب خان کی طرح امریکی پلڑے میں تھے لیکن اس دوران بھی پاکستان اور چین کے تعلقات معمول پر رہے۔ چین نے اپنی معاشی ترقی کا سفر جاری رکھا اور اکیسویں صدی میں اک بڑی معیشت بن کر ابھرا۔ اسی بڑی معیشت کی بنا پر ماضی قریب میں چین نے OBOR ون بیلٹ ون روڈ کے نام سے اک منصوبہ شروع کیا جس کے تحت چین جہاں تک ممکن ہو سکتا ہے دنیا کو روڈ کے زریعے اک دوسرے سے ملانا چاہتا ہے۔ CPEC بھی اسی منصوبہ کی ایک کڑی ہے یا یوں کہہ لیا جائے کہ سی پیک ون بیلٹ ون روڈ کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ اسی سی پیک کی بدولت جہاں چین ایک طرف روس سے ہوتا ہوا منگولیا، پاکستان سے گزر کر بحیرہ عرب تک جا پہنچے گا اور وہاں سے آگے مشرق وسطی اور پھر افریقہ کی جانب۔ دوسری جانب چین اسی OBOR کے تحت سنٹرل ایشیاء اور آگے ایورپ تک زمینی راستوں کو وسعت دینا چاہتا۔ اس سارے منصوبے میں سب سے اہم منصوبہ سی پیک کا ہے کیونکہ اسی کی بدولت چین کو جنوب کی طرف پانیوں تک رسائی ہو گی اسی لیے انڈیا اور امریکہ ہر صورت میں سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف عمل ہیں۔
یہ سی پیک منصوبہ ہے کیا آئیے ذرا اک نظر اس پہ ڈالی جائے۔ ویسے تو سی پیک کا کریڈٹ مشرف بھی لیتا تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی لیتی ہے لیکن اصل میں رسمی طور پر 2013 میں ن لیگ کے دور میں پاکستان اور چین کے درمیان 51 ایم او یوز سائن ہوئے جس کی بدولت چین پاکستان میں چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کے نام سے ایک ترقیاتی منصوبہ شروع کرنے جا رہا ہے جس پر بنیادی طور پر 46 ارب امریکی ڈالرز کی لاگت آئے گی۔ یہ منصوبہ اصل میں ایک انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کا منصوبہ ہے جس میں چین کے جنوبی علاقے کاشغر کو پاکستان کے جنوبی علاقے گوادر سے ملایا جا رہا ہے۔ ان 46 ارب ڈالرز میں سے تقریباً 12 ارب ڈالر انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ جس میں ہائی ویز، ریلوے لائنز، گوادر پورٹ ڈیویلپمنٹ اور گوادر شہر کی ترقی پر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب تقریبا 34 ارب امریکی ڈالر انرجی منصوبے پر خرچ ہوں گے۔ ہائی ویز میں اسلام آباد سے لیکر گوادر تک مختلف نئے روڈز بنائے جائیں گے جو پاکستان کے تمام صوبوں میں سے ہو کر گوادر تک پہنچیں گے۔ جہاں سی پیک کے پاکستان کے لیے بہت فوائد ہیں وہیں یہ منصوبہ چین کے لیے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ چین تقریباً اپنا 80 فیصد تیل مڈل ایسٹ سے منگواتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خام مال بھی افریقی ممالک سے حاصل کرتا ہے جس کے لیے اسے یہ مال لے کر انڈین اوشن میں سے گز کر آبنائے ملاکہ میں سے ہوتے ہوئے آگے ساؤتھ چائنہ سی میں سے گزرتے ہوئے اپنے ملک پہنچتا ہے۔ اس سارے پراسیس میں اسے 15 ہزار سے 16 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے اور ساتھ میں ان ممالک کی حدود میں سے بھی گزرنا پڑتا ہے جس کے ساتھ چین کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ جبکہ دوسری جانب سی پیک کی بدولت چین کو 10سے 11 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ کم ہو کر 5 سے 6 ہزار کلومیٹر تک پڑتا ہے اور جو مال آبنائے ملاکہ سے چین تین ماہ میں پہنچتا تھا وہ اسے ایک ماہ میں مل جائے گا اور اس میں چین کو صرف ایک ملک پاکستان کی حدود میں سے گزرنا پڑے گا اور پاکستان کے ساتھ تعلقات اس کے پہلے سے ہی اچھے ہیں۔

سی پیک کو اگر ریجنل ویو کے مطابق دیکھا جائے تو جنوبی ایشیاء میں اس وقت دو متحارب بلاک ہیں جس میں ایک پاکستان-چین جبکہ دوسرا انڈیا-امریکہ۔ ان دونوں گروہوں میں ایک جنوبی ایشیائی ملک ہے جبکہ دوسرا غیر جنوبی ایشیائی۔ چین تو خیر پھر بھی ان دونوں بڑے جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنی سرحد شیر کرتا ہے جبکہ امریکہ تو سات سمندر پار ہے۔ امریکہ اور انڈیا دونوں ممالک چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے پریشان ہیں امریکہ چین کو عالمی پس منظر میں دیکھتا ہے جبکہ انڈیا جنوبی ایشیاء کے حوالے سے۔ پاکستان اور چین کا سی پیک جیسا گیم چینجر منصوبہ شروع کرنا ان دونوں کے لیے جلتی پر تیل کے مانند ہے
۔ امریکہ اور اس کے حواری بالخصوص یورپ، اور انڈیا اس منصوبے کو ہر حال میں سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس اکنامک کوریڈور کو اک عسکری کوریڈور بنا کر دنیا میں پیش کر رہے ہیں۔ حالیہ جی سیون کے اجلاس کا مین مدعا بھی چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنا تھا۔

امریکہ ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ کم از کم پاکستان کو ہی سی پیک سے باز رکھا جائے جس کے لیے وہ ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن جب کسی جانب دال نہ گلی تو دونوں ممالک میں نفرت کا بیج پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عمران خان کے امریکی ٹی وی چینل کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں جب امریکہ کو نہ کہی تو اینکر پرسن نے پینترا بدلتے ہوئے چین میں موجود ایگور مسلمانوں کا ایشو اٹھا لیا جس کو عمران خان نے عمدہ طریقے سے ہینڈل کیا جیسے لمحہ موجود میں کرنا چاہیے تھا۔
قصہ مختصر یہ کہ پاکستان چین کی جو دوستی 1951 میں شروع ہوئی تھی ٹھیک ستر سال بعد اپنے نقطہء عروج پر پہنچ چکی ہے اور جیسے اک شہر یا گاؤں میں دشمنوں کو ایسی دوستی ایک آنکھ نہیں بھاتی بالکل اسی طرح امریکہ انڈیا اور ان کی حواریوں کو بھی پاکستان اور چین کی یہ دوستی بہت کھنکتی ہے۔ اب دشمن آئے روز کوئی نہ کوئی چال چل رہا ہے کہ کسی طرح پاکستان اور چین میں چپقلش پیدا کی جائے۔ وہ ہر بار منہ کی کھاتا ہے اور ہر بار ایک نئے منصوبے کے ساتھ آتا ہے۔
داسو ڈیم کے قریب چینی عملے پر ہونے والا حملہ بھی اسی چال کی اک کڑی ہے۔ اب پاکستان اور چین پر منحصر ہے کہ وہ کیسے ان سب چالوں کو ناکام کرتے ہوئے سی پیک کو مکمل کرتے ہیں۔

Leave a reply