سی پیک کے بعد ایک اورانقلابی پروجیکٹ . تحریر: احمد حسن

0
60

سی یپک کے بعد خطے کےلیے ایک اور تاریخی پروجیکٹ آنے والا ہے جس کو آج عمران خان نے خطے کےلیے انقلابی پروجیکٹ کا نام دیا۔

یہ پروجیکٹ پاکستان افغانستان ازبکستان ریلوے منصوبہ ہے ۔ پاکستان، افغانستان اور ازبکستان ریلوے کے درمیان اس منصوبے کیلئے573 کلو میٹر تک ریلوے ٹریک بچھایا جائے گا اور اس ریلوے منصوبے پر تقریبا 4 ارب 80 کروڑ ڈالرز لاگت آئے گی۔ یہ منصوبہ پاکستان کو براہ راست وسطی ایشیائی ریاستوں سے جوڑ دے گا جس کے بعد تیز ترین تجارت ہو گی ۔ تاجکستان اور ترکمانستان سمیت دیگر وسطی ایشیائی ممالک بھی مجوزہ ریلوے منصوبے میں شامل ہو سکیں گے۔

اس منصوبے سے خطے میں پاکستان کا اثر ورسوخ بڑھے گا۔ افغانستان اس کا مرکزی کردار ہے لہذا پاکستان اور ازبکستان مل کر لائحہ عمل ترتیب دے رہے ہیں۔ اس منصوبے کے بعد افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں پاکستان ہر قسم کی اجارہ داری کو کاؤنٹر کر پائے گا۔ یہ سفارتی ، سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے ایک انقلابی پروجیکٹ ہے جس سے پاکستان کی ترقی کی رفتار تیز تر ہو جائے گی۔

افغانستان اور ازبکستان کے درمیان 144 کلو میٹر کی سرحد ہے۔ خود ازبکستان کے اہم وسطی ایشیائی ریاستوں کرغیزستان ، تاجکستان اور ترکمانستان سے بارڈر لگتے ہیں۔ ازبکستان سے باقی وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ساتھ قزاقستان تک بھی تیز ترین رسائی ہو گی جو ان قریبی وسطی ایشیائی ریاستوں میں سب سے بڑی ریاست ہے اور اس سے روس تک رسائی ہو گی۔ قازقستان میں اس قدر قدرتی وسائل ہیں کہ ہر ملک اس سے تجارت کا خواہاں ہے ۔ آئل کے حساب سے دیکھا جائے تو قازقستان دنیا کا سب سے بڑا آئل ایکسپورٹر بن سکتا ہے۔ اس کی جغرافیائی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔

یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کےلیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سی پیک کے بعد اس منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد ہم واضح کہہ سکیں گے کہ پاکستان خطے میں اپنی معاشی اجارہ داری قائم کر چکا ہے۔ دنیا کی پانچویں بڑی مارکیٹ یعنی پاکستان ایسے منصوبوں کی بدولت جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیائی ریاستوں کےلیے خصوصاً اور پورے ایشیا کےلیے مرکزی حثیت اختیار کر جائے گا ۔ معاشی برتری کے بعد پاکستان خارجہ سطح پہ بھی مضبوط ہو گا۔

عمران خان نے حکومت میں آتے ہی اس اہم منصوبے کےلیے رابطے شروع کیے تھے اور پھر 11 دسمبر 2018 کو ازبکستان ، روس ، قازقستان ، افغانستان اور پاکستان کے مابین ، ایک مشترکہ ورکنگ گروپ کے قیام اور مزار شریف -کابل – پشاور ریلوے کی تعمیر کے لئے مالیاتی کنسورشیم کے لئے ایک پروٹوکول پر دستخط کیے تھے ۔ اس کے بعد فزیبلٹی سٹڈی جاری رہی تاہم کسٹم،امیگریشن اور بارڈر اتھارٹیز کے معاملات میں کچھ مشکلات رہیں ۔ کرونا وائرس اور افغانستان کی بدلتی صورتحال کے پیش نظر منصوبہ تاخیر کا شکار رہا ہے ۔ ان شاءاللہ اب اس پہ باقاعدہ کام شروع ہو جائے گا ۔ اس سال فروری میں اہم معاملات طے پا گئے ہیں۔ ان شاءاللہ عمران خان کی قیادت میں پاکستان نہ صرف اپنے لیے بلکہ خطے کےلیے بھی ترقی کا مرکز بنے گا۔

@IAhmadPatriot

Leave a reply