یوم وفات حضرت قائداعظمؒ محمد علی جناحؒ تحریر: احسان الحق

0
25

حضرت قائداعظمؒ محمد علی جناح وہ بطل جلیل ہیں جن کی فراست، تدبر، سیاست اور وکالت کا برصغیر میں تو کیا پوری دنیا میں کوئی ثانی نہیں. آپ یقیناً بیسویں صدی کے عظیم ترین اور بہترین رہنما ہیں جن کی عظمت، فراست، اخلاق اور سیاست کی تعریف کرنے پر پوری دنیا مجبور ہے. آپ نے مسلمانان برصغیر کے خلاف انگریز-ہندو گٹھ جوڑ کا بڑی کامیابی سے مقابلہ کیا اور دونوں حریفوں کو اپنی فراست اور سیاست کے ذریعے زیر کیا. تقریباً 200 سالہ غلامی میں جکڑی مسلمان قوم کو بدمست اور متعصب ہندوؤں اور انگریزوں سے آزادی دلانا یقیناً بہترین صاحب سیاست اور صاحب فراست شخصیت کا کام ہے. بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ محمد علی جناح عالم سیاسیات میں ایک انتہائی منفرد اور غیرمعمولی شخصیت ہیں. آپ نہ صرف سیاست، وکالت، شجاعت اور حوصلے میں اعلیٰ ترین تھے بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے بے لوث اور بے غرض ہو کر اجتماعی فلاح کا ایسا کارنامہ سرانجام دینے میں کامیاب ہوئے جس کی دشمنوں سمیت ساری دنیا معترف ہے.

حضرت قائداعظمؒ ایک بہترین سیاستدان اور مدبر ہونے کے ساتھ ساتھ دور اندیش بھی تھے. برصغیر کے مسلمانوں کے متعلق آپ نے جتنے خدشات کا اظہار کیا وہ سارے خدشات وقت کے ساتھ ساتھ درست ثابت ہوئے. دہلی میں منعقدہ مسلم لیگ کے تیسویں اجلاس میں آپ نے فرمایا تھا.

"مسلمان گروہوں اور فرقوں کی نہیں بلکہ اسلام اور قوم کی محبت پیدا کریں کیوں کہ انہیں برائیوں نے مسلمانوں کو 200 سال سے کمزور اور محکوم بنا رکھا ہے”. اسی طرح آپ نے کشمیر کے متعلق جو فرمایا تھا کہ "کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے” ہمیں اب احساس ہوا کہ کہ کشمیر کیسے اور کس طرح پاکستان کی شہ رگ ہے. ناجائز اسرائیلی ریاست کے قیام کے خلاف آپ نے جو کچھ فرمایا تھا آج وقت نے ٹھیک اسی طرح ثابت کر دیا ہے. ہندوستان کے مسلمانوں کے متعلق ہندوؤں کی سوچ کا آپ 100 سال پہلے بتا چکے تھے جو آج ہندوستان میں ہندو مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں.

بانی پاکستان بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ بیماری کی حالت میں بھی پاکستان کا سوچ رہے تھے. قائداعظمؒ کے ذاتی معالج ڈاکٹر ریاض علی شاہ "قائداعظمؒ کے آخری لمحات” میں لکھتے ہیں کہ، 

قائداعظمؒ کو کریون اے کے سگریٹ پسند تھے اور اکثر یہی سگریٹ نوش فرماتے تھے. ایک دن کریون اے کے سگریٹ ختم ہو گئے اور پورے کویٹہ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہے تھے. لیفٹیننٹ کرنل الٰہی بخش نے کہا کہ میں نے ایک دوکان پر یہ سگریٹ دیکھے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو میں جا کر یہ سگریٹ لے آتا ہوں. جاتے جاتے کرنل الٰہی بخش کہنے لگے کہ اگر ہم پاکستان میں سگریٹ بنانے کی فیکٹری بنائیں اور اچھی قسم کا تمباکو امریکہ سے منگوا کر اپنے ہی ملک میں سگریٹ بنانا شروع کر دیں تو یہ کتنا اچھا ہوگا. یہ سن کر حضرت محمد علی جناحؒ کی آنکھیں جوش سے لال ہو گئیں اور فرمانے لگے "پاکستان میں دنیا کا سب سے اچھا تمباکو ملتا ہے، تمباکو کے لئے ہم امریکہ کے محتاج نہیں ہو سکتے. ہم اپنے ملک میں بہترین تمباکو پیدا کر کے سیگریٹ بنا کر دوسرے ملکوں کو بھی بیچ سکتے ہیں”

ایک روز حضرت قائداعظمؒ باتوں باتوں میں فرمانے لگے کہ پاکستان ایک زندہ حقیقت ہے، ایک ایسی حقیقت جس کا دوست، دشمن، اپنے اور پرائے سب اعتراف کرنے پر مجبور ہیں. پاکستان بن چکا ہے. پاکستان کا مستقل درخشندہ ہے. میری روح کو تسکین میسر ہے کیوں کہ برصغیر کے مسلمان اب ہندوؤں یا انگریزوں کے غلام نہیں رہے بلکہ آزاد ریاست کے مالک ہیں. مزید فرماتے ہیں کہ جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ میری قوم آج ایک آزاد اور خود مختار قوم بن چکی ہے تو فخر سے میرا سر عجز و نیاز کے جذبات سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجا لانے کو جھک جاتا ہے.

ان دنوں معالجین کی زیر نگرانی آپ حضرت قائداعظمؒ کوئٹہ زیارت میں تھے. آپ کی طبیعت قدرے سنبھل گئی تھی مگر بعد میں آپکی طبیعت روز بروز مضمحل ہوتی چلی گئی اور کمزوری میں اضافہ ہوتا گیا. 8 یا 9 ستمبر کو قائداعظمؒ نے اپنی طبی ٹیم سے فرمایا کہ مجھے کراچی لے چلو.

11 ستمبر کو کوئیٹہ سے کراچی کے لئے روانہ ہوئے. آپکے ذاتی معالجین، مادر ملت فاطمہ جناح اور کرنل الٰہی بخش ہمراہ تھے. دوران سفر آپ سکون سے رہے. قائداعظمؒ کے ذاتی معالج ڈاکٹر ریاض علی شاہ لکھتے ہیں کہ

"ہم 11 ستمبر کو کوئٹہ سے کراچی کے لئے روانہ ہوئے. راستہ میں مکمل پرسکون رہے اور ادھر ادھر کی باتیں بھی کرتے رہے. سفر کے دوران کسی قسم کی پریشانی یا تکلیف محسوس نہیں کی”

فاطمہ جناح کے کہنے پر کرنل الٰہی بخش، ڈاکٹر مستری اور ڈاکٹر ریاض علی شاہ ہوٹل چلے گئے. ڈاکٹر کہتے ہیں کہ 9 بجے کے قریب فاطمہ جناح کا ہمیں فون آیا اور کہتی ہیں کہ کمزوری میں اضافہ ہو گیا ہے اور طبیعت میں بے قراری بڑھتی جا رہی ہیں، پریشانی کے عالم میں محترمہ فاطمہ جناح نے یہ سب فون پر ڈاکٹروں کو بتایا. معالجین اور کرنل الٰہی بخش فوراً گورنمنٹ ہاؤس کراچی پہنچے. حضرت قائداعظمؒ پر بے ہوشی طاری تھی اور کمزوری انتہا کو پہنچ چکی تھی. آپکی نبض میں بگاڑ آ گیا تھا اور آنکھیں پتھرا رہی تھیں. طبی ٹیم نے باہم مشورے سے آپکو کئی ٹیکے لگائے گئے جس سے آپکی طبیعت میں کسی حد تک بہتری پیدا ہوئی. مگر کچھ دیر بعد آپ کا دل ڈوبنے لگا اور آپکی نبض بھی غیرمتوازن طریقے سے چلنے لگی، آنکھیں بند ہونے لگیں اور سانس بھی رک رک کر چلنے لگی. اس بے ہوشی کے عالم میں آپ نے کچھ کہا.

ساتھ کھڑے معالجین اور قریبی لوگوں کے بقول کہ حضرت قائداعظمؒ کا آخری فقرہ مکمل طور پر ہمیں سمجھ نہیں آیا صرف "اللہ” اور "پاکستان”سمجھ آیا. مطلب آخری لمحات میں آخری الفاظ بھی اللہ اور پاکستان کے متعلق تھے. 11 ستمبر 1948 کو 71 سال کی عمر میں پاکستان اور مسلمانوں کا سوچتے سوچتے 10 بج کر 25 منٹوں پر صدی کے عظیم ترین رہنما، مسلمانان برصغیر کے مسیحا، باکردار، بابائے قوم اور بانی پاکستان ہمیشہ کی نیند سو گئے.

انا للہ واناالیہ راجعون.

بانی پاکستان حضرت محمد علی جناحؒ کے انتقال کی خبر پورے کراچی میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی. کراچی سمیت پورا پاکستان حزن و ملال میں ڈوب گیا. تمام رات لاکھوں پاکستانیوں سمیت دنیا کے تمام مسلمان اپنے عظیم رہنما اور مسیحا کی رحلت پر ماتم میں سوگوار اور اشک بار رہے. صبح ہوتے ہی پورا پاکستان ماتم کدہ بن گیا. 12 ستمبر کو عظیم قائد کے عظیم جنازے کو اس کی شایانِ شان کے مطابق فوجی اور ریاستی اعزاز سے اٹھایا گیا. اپنے عظیم قائد کو الوداع کہنے کے لئے لاکھوں لوگوں نے جنازہ میں شرکت کی. صدی کے عظیم ترین رہنما اور مسیحا کو دفن کر دیا گیا.

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا.

اللہ تعالیٰ حضرت قائداعظمؒ محمد علی جناحؒ کی تمام لغزشوں کو معاف فرمائیں اور درجات بلند فرماتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا کریں۔ آمین

‎@mian_ihsaan

Leave a reply