دیت کے قانون کی مخالفت، آخر کیوں؟ — نعمان سلطان

0
34

شاہ رُخ جتوئی مقتول شاہ زیب کے لواحقین کے ساتھ راضی نامہ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ سے بری ہو گیا ہے افواہیں ہیں کہ لواحقین نے معقول پیسے لے کر راضی نامہ کیا جب کہ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مقتول کہ لواحقین کو ڈرا دھمکا کے راضی نامے پر مجبور کیا گیا ۔

اب دو صورتیں ہیں اگر ڈرا دھمکا کر راضی نامے یا خون بہا لینے پر مجبور کیا گیا تو یہ ہمارے نظام انصاف کی خامی ہے جس کا میں نے اپنی ایک سابقہ پوسٹ میں ذکر بھی کیا جس میں چیف جسٹس نے حاضرین سے سوال کیا جن کو پاکستان کے نظام انصاف پر یقین ہے وہ ہاتھ کھڑا کریں تو حاضرین میں سے کسی ایک شخص نے بھی اپنا ہاتھ کھڑا نہیں کیا ۔

اگر مقتول کے لواحقین نے دیت (خون بہا) لیا تو یہ ان کا شرعی حق ہے اس کے لئے بھی شرط ہے کہ مرحوم کے تمام شرعی وارث اگر دیت (خون بہا) لینے پر راضی ہوں تب راضی نامہ ہو گا اب اگر آپ یا میں مرحوم کے شرعی وارث ہیں تو ہمارا دیت لینے پر اعتراض کرنا بنتا ہے اگر ہم شرعی وارث نہیں تو ہم اخلاقی یا قانونی طور پر مرحوم کے لواحقین کے دیت (خون بہا) لینے پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کر سکتے ہیں ۔

البتہ اس قتل کے کیس میں ریاست مدعی بن سکتی تھی اور وہ بنی بھی، شاہ رخ جتوئی پر اس قتل کے کیس میں 7ATA لگی جو کہ دہشت گردی کی دفعہ ہے یہ ناقابل ضمانت ہے اور مقتول کے لواحقین کی طرف سے راضی نامہ ہونے کے باوجود شاہ رخ جتوئی کی رہائی نہ ہونے کی وجہ یہی دہشت گردی کی دفعہ تھی بہرحال شاہ رُخ جتوئی کے وکیلوں نے عدالت میں دلائل دے کر دہشت گردی کی دفعہ اس پرچے سے خارج کرا دی اس کے بعد مقتول کے لواحقین کا راضی نامہ عدالت میں پیش کرنے پر عدالت نے شاہ رخ جتوئی کو رہا کر دیا ۔

اب اس سارے معاملے کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر لوگوں کی رائے منقسم ہو گئی ہے چند دوست احباب مقتول کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں اور شاہ رخ جتوئی کی بریت کی وجہ اس کی بے تحاشہ دولت اور اختیارات کا ناجائز استعمال بتا رہے ہیں جب کہ چند دوست حقائق سے ناواقفیت کی بنیاد پر دیت (خون بہا) لینے کو مقتول کے لواحقین کی لالچ سے تعبیر کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں کہ جب انہوں نے پیسے لے کر راضی نامہ کر لیا تو اب ان سے ہمدردی کس بات کی جب کہ اسی بات کی آڑ لے کر چند احباب اسلامی دیت (خون بہا) لینے کے قانون پر تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں ۔

ہم اسلامی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قاتل کے بارے میں قرآن پاک میں کیا حکم دیتے ہیں اور قصاص لینے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں یا دیت (خون بہا) لینے کی
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

وَمَن یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْماً (النساء ۴:۹۳)

’’اور وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے ‘‘

مقتول کے لواحقین کی دلجوئی کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں الگ سے آیات نازل کیں اور اس میں ان پر مقتول کا قصاص لینے کا حکم دیا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب لوگوں کو علم ہو گا کہ قصاص میں لازمی ہم بھی قتل کئے جائیں گے تو وہ اشتعال میں آنے سے گریز کریں اور فساد فی الارض کے مرتکب نہیں ہوں گے ۔

۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۔۔۔۔﴿البقرة: ١٧٨﴾

’’اے ایمان والو تم پرمقتولین کا قصاص فرض کیا گیا ہے، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔”

لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ ہر کوئی قتل منصوبہ بندی کر کے یا فوری اشتعال میں آ کر نہیں کرتا اتفاق سے بھی قتل ہو جاتا ہے جیسے ایکسیڈنٹ میں کسی کی موت وغیرہ تو اسے شریعت کی اصطلاح میں قتل خطا کہتے ہیں اور اس میں مقتول کے لواحقین کو کہا گیا ہے کہ وہ دیت (خون بہا) لے کر یا اللہ واسطے قاتل کو معاف کر دیں ۔

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَن يَصَّدَّقُوا ۔۔۔۔﴿النساء: ٩٢﴾

’’کسی مومن کا یہ کام نہیں کہ دوسرے مومن کو قتل کرے، الا یہ کہ اُس سے خطا ہو جائے، اور جو شخص کسی مومن کو خطا سے قتل کر دے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مومن غلام کو آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو دیت دے۔‘‘

یعنی قرآن پاک میں جان بوجھ کر کر قتل کرنے کے لئے قصاص کا حکم ہے اور غیر ارادی قتل کی صورت میں دیت (خون بہا) لینے کا حکم ہے لیکن ہم لوگ ان واضح احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی سہولت کے مطابق ان کا استعمال کرتے ہیں اور قتل عمد میں بھی دیت (خون بہا) لے لیتے ہیں یا ایسے ہی راضی نامہ کر لیتے ہیں ۔
۔
ایک سچا واقعہ آپ کو سناتا ہوں تاکہ بات مزید واضح ہو جائے، والدین کے صرف دو ہی بیٹے تھے بڑا بیٹا شادی شدہ جب کہ چھوٹے بیٹے کی منگنی ہوئی تھی لیکن بڑے بھائی کی بیوی چاہتی تھی کہ دیور کی شادی میری بہن سے ہو اور منگنی ٹوٹ جائے اس بات پر دونوں بھائیوں میں اختلافات پیدا ہوئے جو لڑائی جھگڑے تک جا پہنچے اور ایک دن لڑائی کے دوران بڑے بھائی نے مشتعل ہو کر چھوٹے بھائی کو قتل کر دیا اب والدین مجبور ہو گئے ان کے صرف دو ہی بیٹے تھے ایک قتل ہو گیا اگر دوسرے کو معاف نہ کرتے تو اسے پھانسی ہو جاتی اس لئے مجبوراً انہوں نے بڑے بیٹے کو معاف کر دیا ۔

اب اس واقعے میں مقتول کے وارث قاتل کے ماں باپ تھے انہوں نے دیت (خون بہا) کے قانون کا غلط استعمال کیا اور جانتے بوجھتے سب نے نظر انداز کر دیا لیکن ہر واقعے میں ایسے نہیں ہوتا مقتول کے شرعی وارثوں کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہم قاتل کے ناپاک وجود کو اس دھرتی پر مزید برداشت نہیں کر سکتے اس لئے ہمیں ہر صورت میں قصاص چاہیے ۔

لیکن بعض مرتبہ قاتل کی سماجی حیثیت اتنی مضبوط ہوتی ہے یا وہ اتنا بڑا بدمعاش ہوتا ہے کہ اس سے اپنے باقی اہل خانہ کی جان بچانے کے لئے مقتول کے وارثوں کو مجبوراً راضی نامہ کرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے دیت (خون بہا) کے قانون کا ہی سہارا لیا جاتا ہے اب اگر ریاست مضبوط ہو اور مقتول کے وارثین کو یقین ہو کہ قصاص لینے کی صورت میں ہمیں قاتل یا اس کے خاندان کی طرف سے کسی قسم کی انتقامی کاروائی کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا تو وہ کبھی بھی دیت (خون بہا) نہ لیں ۔

قتل فساد فی الارض ہے اور اس کو روکنے کا سب سے بہترین طریقہ قصاص ہی ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ قصاص کے خوف سے کوئی قتل کا ارتکاب ہی نہیں کرے گا اور اگر کرے گا تو قصاص لینے کی صورت میں زمین سے ایسے شخص کا بوجھ کم ہو جائے گا لیکن دیت ہم پر بوجھ نہیں بلکہ رب کی رحمت ہے کہ اگر نادانستگی میں کسی سے ناحق قتل ہو جائے تو قاتل سے دیت (خون بہا) لے کر اسے ایک موقع دیا جائے۔

اگر دیت نہ ہوتی تو قصاص پر روشن خیالوں کا ہی اعتراض ہوتا کہ اسلام کی نظر میں قتل عمد اور قتل خطا ایک برابر ہیں جو کہ نا انصافی ہے لیکن دیت کی وجہ سے وہ قصاص پر اعتراض نہیں کر سکتے تو اپنا بغض نکالنے کے لئے اب وہ دیت پر اعتراض کر رہے ہیں اس لئے اسلامی قانون پر اعتراضات کے بجائے اگر ان کو ان کی روح کے مطابق نافذ کرنے پر توجہ دی جائے تو یقیناً اس کے اثرات دیکھ کر معترضین بے ساختہ کہہ اٹھیں گے کہ واقعی اسلام دین فطرت ہے ۔

Leave a reply