دہلی فسادات،فیس بک نے جواب دینے کیلئے دہلی حکومت سے وقت مانگ لیا

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق دہلی فسادات کے حوالہ سے دہلی حکومت نے فیس بک کو طلب کر لیا ہے
فیس بک نے دہلی حکومت کے سامنے پیش ہونے کی یقین دہانی کروا دی ہے اور کہا ہے کہ 14 روز کا وقت دیا جائے، پھر اسکے بعد فیس بک انتظامیہ پیش ہو گی، دہلی حکومت اور ہم آہنگی کمیٹی کے سامنے فیس بک کے قابل افسران پیش ہوں گے، فیس بک کی جانب سے وقت مانگے جانے پر ہم آہنگی کمیٹی کے چیئرمین راگھو چڈھا نے فیس بک کو وقت دیتے ہوئے کہا کہ اب 18 نومبر کو دن ساڑھے بارہ بجے فیس بک افسران کمیٹی کے سامنے پیش ہوں
ہم آہنگی کمیٹی کے چیئرمین راگھو چڈھا نے فیس بک کو 27 اکتوبر کو نوٹس جاری کیا تھا اور دو نومبر کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا تا ہم فیس بک انتظامیہ نے ای میل کے ذریعے جواب دیا اور کہا کہ چودہ روز کا وقت دیا جائے، کمیٹی فروری 2020 میں دہلی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی تحقیقات کر رہی ہے
ہم جہنم میں جی رہے ہیں، دہلی ہائیکورٹ نے حکومت بارے دیئے ریمارکس
دہلی سے مسلم نوجوان گرفتار،داؤد ابراہیم سے تعلق،پاکستان سے تربیت لی، دہلی پولیس کا دعویٰ
حکومت کے خلاف احتجاج ،وزیراعلیٰ کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا
کسانوں کا بھارت بند، ٹرین روک دی ،احتجاج جاری
کسانوں کے احتجاج میں شامل خاتون نے لگایا مودی پر سنگین الزام
مودی سرکار کی تجویز نامنظور،کسانوں نے دوبارہ بڑا اعلان کر دیا
مر جائیں گے لیکن گھر نہیں جائیں گے، بھارت میں کسانوں کا اعلان
نہ تھکیں گے، نہ رکیں گے،بھارت میں کسانوں کا احتجاج جاری، بھوک ہڑتال شروع
کسان رہنماؤں کو قتل کروانے کی مودی سرکار کی سازش بے نقاب
کسان ٹریکٹر مارچ روکنے کیلئے فوج تعینات، کسانوں کا بھی مودی کو دبنگ پیغام
دہلی فسادات میں کم از کم 50 سے زائد مسلمان جان کی بازی ہا ر گئے تھے، مسلمانوں کے گھروں، دکانوں کو جلا دیا گیا تھا انکی کروڑوں کی املاک تباہ ہو گئی تھیں تا ہم اب چارج شیٹ میں مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا ہے،چارج شیٹ میں جن لوگوں کے نام شامل کئے گئے ہیں ان میں عام آدمی پارٹی کے معطل لیڈر طاہر حسین اور کئی طلبہ کے نام شامل ہیں۔
پولیس نے عدالت کو بتایا کہ سیلم پور اور ظفرآباد میں فساد برپا کرنے کیلئے دو واٹس ایپ گروپس کا استعمال کیا گیا۔ تائید کرنے والوں نے درمیانی درجہ کے قائدین کو استعمال کرتے ہوئے پولیس کو نشانہ بنایا۔ سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ اس احتجاج میں حصہ لینے کیلئے 20 کیلو میٹر پیدل چلے۔ شروع سے ہی یہ کوئی جمہوری احتجاج نہیں تھا۔ احتجاج کے پہلے دن سے ہی تشدد کیلئے بھڑکایا جارہا تھا۔ احتجاجیوں نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑے کرنے کی مہم چلاتے ہوئے غیرجمہوری طریقہ سے احتجاج کیا جس کے نتیجہ میں تشدد کیلئے بھڑکایا گیا۔
دہلی پولیس نے چارج شیٹ میں مزید الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مرکز کے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) پر فرقہ وارانہ فسادات کروائے گئے۔ دہلی میں دو گروپوں سی اے اے کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ اس احتجاج کے دوران امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ بھی بھارت میں موجود تھے جہاں ٹرمپ اور مودی کی ملاقات ہورہی تھی۔ دہلی شہر کے کئی حصوں میں بڑے پیمانے پر جھڑپیں دیکھی گئیں۔
دہلی تشدد کی تحقیقات کے لئے اسپیشل سیل نے 6 مارچ کو ایف آئی آر درج کی تھی۔ اسی کے تحت یہ چارج شیٹ داخل کی گئی ہے۔ اس واقعہ کی تحقیقات کے سبب اسپیشل سیل 20 افراد کو گرفتار کرچکی ہے، جن میں شرجیل امام، دیوانگنا، صفورا زرگر، نتاشا، عشرت جہاں، شفاء الرحمن، فاطمہ، میران حیدر شامل ہیں۔
دہلی فسادات کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی، دہلی ہائیکورٹ