انسان کبھی خوش ہوتا ہے اور کبھی غمگین جس سے اس کی جسمانی اور ذہنی صحت پر بہت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو کوئی پریشانی لاحق ہو تو اسے ڈپریشن کا نام دے دیا جاتا ہے اور فرضی یا معمولی سمجھ کر ٹال دیا جاتا ہے۔ ڈپریشن کی بیماری کے بارے میں ایک عام آدمی کے ذہن میں بہت سے ابہام اور شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ جس سے ڈپریشن میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ آیا اسے ڈپریشن ہے بھی یا نہیں۔
ڈپریشن کے بارے میں سب سے سب سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ڈہریشن ایک بیماری ہے جیس طرح نزلہ، زکام، بلڈ پریشر، ذیابیطس، ٹی بی یا دیگر امراض۔ جن کے مریضوں کو دوا کے ساتھ ساتھ مناسب توجہ اور دیکھ بھال کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح کوئی بھی انسان کئی طرح کی جسمانی بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے بالکل اسی طرح کوئی بھی انسان نفسیاتی بیماریوں کا بھی شکار ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے کوئی خاص حد مقرر ہے۔ یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ آج کل چھوٹی عمر کے بچے بھی اس کا شکار ہورہے ہیں۔ جس کی بہت سی وجوہات ہیں مثلاً نا مساعد حالات، والدین کا مناسب پیار نہ ملنا اور احساس کمتری وغیرہ۔
ڈپریشن کی بہت سی علامات ہوسکتی ہیں لیکن میں چند اہم علامات کا ذکر کروں گا جو کہ آج کل عام ہیں۔
درج ذیل میں سے اگر کسی شخص میں کم ازکم چار علامات کی موجودگی ہو تو وہ ڈپریشن کا شکار ہوسکتا ہے۔
1۔ عموماً ہر وقت یا اکثر اوقات برقرار رہنے والی اداسی اور افسردگی۔
2۔ جن چیزوں اور کاموں میں پہلے دلچسپی محسوس ہوتی ہو ان میں دل نہ لگنا اور ان سے بیزاری محسوس ہونا۔
3۔ جسمانی یا ذہنی طور پر کمزوری محسوس کرنا، ہر وقت اپنے آپ کو بہت زیادہ تھکا ہوا محسوس کرنا۔
4۔ روز مرہ کے امور اور باتوں پر صحیح طرح سے توجہ نہ دے پانا۔
5۔ اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر سمجھنا جس کے نتیجہ میں خود اعتمادی میں واضح کمی ہونا۔
6۔ ماضی کی تمام چھوٹی بڑی بڑی باتوں کے لیے اپنے آپ کو موردِ الزام ٹھہراتے رہنا، اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں ناکارہ اور فضول سمجھنا۔
7۔ مستقبل کے بارے میں سوچ کر مایوس ہونا۔
8۔ ذہن میں خودکشی کے خیالات آنا یا خودکشی کی کوشش کرنا۔
9۔ نیند کی خرابی یعنی کہ نیند نہ آنا اور نیند سے اچانک جاگ جانے کی صورت میں دوبارہ نیند نہ آنا۔
10۔ بھوک کی کمی اور کسی چیز کو کھانے کا دل نہ کرنا۔
ان علامات کی موجودگی کی صورت میں کسی ماہرِ نفسیات یا ڈاکٹر سے رابطہ کرنے میں بالکل بھی جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیئے۔ کیونکہ ڈپریشن کے دورانیے اور شدت کا انحصار انسان کی شخصیت اور قوتِ مدافعت پر بھی ہوتا ہے۔ بعض مریض محض سائیکوتھراپی سے ہی بہتری محسوس کرنے لگتے ہیں لیکن اگر حالت انتہائی ہو تو ایسے حالات میں سکون آور ادویات کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے۔ اس صورت میں مریض کی حوصلہ افزائی کرنا اس کے لیے بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔
ان تمام حالات کو اچھی طرح سے کنٹرول کرنے کے لیے ایک "ٹائم ٹیبل” کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس میں سونے جاگنے، کھانے پینے اور ورزش کے اوقات مقرر ہونے چاہیئں خوراک کا خصوصی طور پر خیال رکھنا جائے۔ پھل سبزیاں اور صحت بخش کھانوں کو ترجیح دی جائے کیونکہ یہ جسم کی قوتِ مدافعت بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ شراب نوشی، سگریٹ نوشی، یا اس طرح کی دیگر چیزوں کے استعمال سے اجتناب کیا جائے۔ اپنے ذہن میں آنے والے منفی خیالات کو جگہ نہ دی جائے۔ ذہن کو مثبت چیزوں کی جانب گامزن کیا جائے۔ اگر کسی قسم کا کوئی نقصان ہو گیا تو اس پر صبر کا جائے اور برداشت سے کام لیا جائے۔
سب سے پہلے انسان کی صحت ضروری ہوتی ہے۔ کسی بھی قسم کی پریشانی سے گریز کیا جائے۔ کسی کو مستقبل کی فکر ہوتی ہے اور کسی کو دولت کی۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ہر انسان کی رزق دینے کا وعدہ کیا ہے۔ تو جتنا ملے اس پر اکتفا کر لینا چاہیئے۔ کیونکہ اس سے ذہنی دباؤ میں کمی آئے گی۔ ان سب پریشانیوں میں انسان سکون کی نیند بھی نہیں سو سکتا۔ اس لیے ذہنی اور روحانی طور پر سکون کے لیے پانچ وقت کی نماز ادا کی جائے اور قرآن پاک کی تلاوت کی جائے۔ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ :
"بلا شبہ اللّٰہ کے ذکر میں ہی دلوں کا سکون ہے”۔
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
@RanaFurqan313