ڈیڑھ لاکھ سے زائد سیلاب متاثرین وبائی امراض کا شکار، امداد نہ ملنے کا شکوہ

0
19

ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں، بے گھر متاثرین میں اب مختلف اقسام کی وبائی بیماریاں پھیل رہی ہیں جب کہ متاثرین امداد کا ملنے کا شکوہ کررہے ہیں۔

ملک میں مون سون بارشوں کا سلسلہ تو تھم گیا ہے لیکن اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کا اثرات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق ملک بھر میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 27 افراد سیلاب کی نذر ہوگئے، جس کے بعد اب ملک میں اس قدرتی آفت کے نتیجے میں لقمہ اجل ہونے والوں کی مصدقہ تعداد 1191 ہوچکی ہے جب کہ 3 ہزار 641 افراد زخمی ہیں۔

24 گھنٹوں کے دوران سندھ میں مزید 15، خیبر پختونخوا میں 7، بلوچستان میں 4 اور پنجاب میں ایک شخص جان کی بازی ہار گیا۔ این ڈی ایم اے کے مطابق ملک میں اب تک سیلاب اور بارشوں سے 3 لاکھ 72 ہزار 823 گھر تباہ ہوئے جب کہ 7 لاکھ 33 ہزار 536 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا۔ قدرتی آفت کے نتیجے میں 243 پل تباہ اور 5 ہزار 63 کلومیٹر شاہراہوں کو نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ 7 لاکھ 31 ہزار سے زائد مویشی بھی سیلاب میں بہہ گئے۔

بلوچستان

بلوچستان میں سیلاب متاثرین کی حالت سب سے زیادہ تشویش ناک ہے، راستوں کی بندش اور امن و امان کی مخدوش صورت حال کے باعث ہزاروں متاثرین تک تاحال امداد نہیں پہنچ پارہی۔ کراچی سے زمینی رابطہ نامکمل ہونے کے باعث اشیائے ضروریہ کی ترسیل کا نظام بھی درہم برہم ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے ناجائز منافع خور مافیا میدان میں آگیا ہے۔

بلوچستان میں سیلاب کے باعث بجلی کا ترسیلی نظام بری طرح متاثر ہوا ہے ، کوئٹہ میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 20 گھنٹوں تک پہنچ گیا ہے جبکہ دیگر اضلاع میں بجلی دستیاب ہی نہیں۔ سولر پینلز کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے، دکاندار کہتے ہیں کہ راستے بند ہیں، مال کم ہو نے کی وجہ قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ چیف ایگزیکٹیو افسر کیسکو کہتے ہیں کہ سیلاب کے باعث بجلی کے 27 گریڈ اور 336 فیڈر متاثر ہوئے ہیں ، بحالی کا کام ایک ہفتے میں مکمل کر لیا جائے گا۔

سندھ

سکھر میں بارش رُکے ایک ہفتہ گزر گیا لیکن شہر بدستور پانی پانی ہے، ایک درجن سے زائد کالونیوں سے تاحال پانی نہ نکالا جاسکا، بےنظیر کالونی، بھوسا لین، گول ٹکری اور احمد نگر زیرآب ہیں، شہبازکالونی اور دیگر علاقوں میں بھی 3 سے 4 فٹ پانی کھڑا ہے۔ پانی کی نکاسی نہ ہونے اور پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی کے باعث گیسٹرو، ملیریا اور جلد کی بیماریاں پھیلنے لگی ہیں۔

خیر پور میں سیلاب متاثرین نے کٹوہرگوٹھ کے قریب سیم نالے کی حفاظتی دیوار کو توڑ دیا ہے جس کی وجہ سے پانی شہر میں داخل ہوگیا، کئی علاقوں میں پانی کی سطح 3 فٹ تک بلند ہوگئی۔ سیلابی پانی ضلع سانگھڑ کے قریب آن پہنچا ہے، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت سیم نالوں میں شگاف کو بھرنے اور نالوں کی صفائی کا کام کررہے ہیں، سیلابی صورتحال کے پیش نظر اب تک 34 ہزار خاندان گھر بار چھوڑ کر سڑکوں پر آچکے ہیں۔
کم از کم 1500ارب کا نقصان

نجی ٹی وی سے گفتگو کے دوران وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سیلاب کے باعث سندھ کو کم از کم پندرہ سو ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے، اس نقصان میں بنیادی ڈھانچے کی تباہی کا نقصان شامل نہیں ہے ۔ مراد علی شاہ نے مزید بتایا کہ سندھ میں 205 ارب روپے کی کپاس فصلوں کو نقصان پہنچا ہے ، خیرپور میں کھجور کی فصل کا نقصان 7 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ 2016 کی خانہ شماری کے مطابق صوبے میں 30 لاکھ کچے گھر ہیں، حالیہ بارشوں کے باعث تمام کچے گھر ڈھے چکے ہیں۔

جنوبی پنجاب

جنوبی پنجاب میں سیلابی پانی اترنے کے ساتھ ساتھ تباہی کے اثرات بھی واضح ہونے لگے ہیں۔

ڈیرہ غازی خان میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی ابتدائی ریورٹ جاری کردی گئی ہے جس کے مطابق ندی نالوں میں سیلاب سے اب تک 45 اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق ڈیرہ غازی خان میں سیلاب سے367 دیہات زیرآب آئے، 2 لاکھ 12 ہزار 838 افراد متاثر ہوئے، طوفانی بارشوں اور سیلاب سے 17 ہزار 838 مکانات منہدم، 96 اسکول متاثر جب کہ 22 سڑکوں کو مکمل یا جزوی نقصان پہنچا۔

رود کوہی اور کوہ سلیمان کے سیلابی ریلے کو راستہ دینے کے لیے قومی شاہراہ کو راجن پور کے قریب سے توڑ دیا گیا ہے اور علاقہ مکین لکڑی سے بنے عارضی پُل سے گاڑیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب جنوبی پنجاب کے سیلاب زدگان میں وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان میں زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں، ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد متاثرین مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں۔

محکمہ صحت پنجاب کے مطابق 37 ہزار سے زائد سیلاب متاثرین سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوئے ہیں جب کہ 33 ہزار سے زائد خارش اور جلدی امراض کا شکار ہوگئے، اب تک 20 ہزار تیز بخار میں مبتلا اور 17ہزار کو ڈائیریا ہوگیا، ڈھائی ہزار سے زائد کو آنکھوں کی بیماری میں آگھیرا، 21 افراد کو کتوں نے کاٹ لیا اور 2 کو سانپ نے ڈسا۔

فاضل پور میں سیلابی پانی سے شمس آباد کالونی کے سیکڑوں گھر تباہ ہوگئے ہیں جس کے بعد علاقہ مکین نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ راجن پور اور فاضل پور کے درمیان واقع بستی کے مکینوں کے لیے نئی مشکل نے آگھیرا ہے، امدادی سامان اصل حقداروں تک پہنچنے سے پہلے ہی لوٹ مار شروع ہوگئی ہے۔

خیبر پختونخوا

سوات کی تحصیل مٹہ میں دریا برد ہونے والے گاؤں جلالہ کے مکین بے سر و سامانی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، گاؤں میں ہرطرف تباہی کے مناظر ہیں، سیلاب سے باغات بہہ گئے، گاؤں کے 21 مکانات دریا برد جب کہ جامع مسجد بھی شہید ہوگئی، متاثرین کا کہنا ہے کہ حکومت آباد کاری کے لئےمالی مدد فراہم کرے۔

دیر سے کمراٹ جانے والی سڑک بری کوٹ کے مقام پر ایک کلو میٹر تک سیلاب کے پانی میں ڈوب گئی ہے، اس کے نتیجے میں کمراٹ اور تھل سمیت کوہستان کی ایک لاکھ سے زائد آبادی کا شہر سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ متاثرین مشکل راستوں پر کئی کلو میٹر طویل پیدل سفر پر مجبور ہیں جب کہ ضلعی انتظامیہ اور لیویز اہلکار امداد کندھوں پر لاد کر متاثرین تک پہنچا رہے ہیں۔

نوشہرہ اور چار سدہ کو آپس میں ملانے والے دریائے کابل پر واقع پُل ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے، یہ پُل سیلاب کی وجہ سے پانچ روز سے بند تھا۔اس کے کھلنے سے چار سدہ اور نوشہرہ کا رابطہ بحال ہو گیا۔

Leave a reply