ڈھوک سکون — انجنئیر ظفر اقبال وٹو

0
29

ندی میں سرخی مائل پانی بہہ رہا تھا جس کی گہرائی نامعلوم تھی۔ندی کے پیندے میں پانی کے متعدد راستے تھے جن کے ساتھ ساتھ کوندر اور سر کے پودے تھے۔ ہمارے پانچ عدد ڈالے چیونٹیوں کی طرح قطار بنائے کچے راستے پر ندی کو پار کرنے کا سوچ رہے تھے لیکن سرخ رنگ پانی کی دہشت سے ڈرتے تھے۔

قافلے کی سب سے پہلی گاڑی ہماری تھی۔ میرے ڈرائیور قمر شاہ نے بسم اللہ پڑھ کر اللہ توکل پر گاڑی پانی میں ڈال دی اور احتیاط سے آگے بڑھتے ہوئے کھاڑی کے دوسرے کنارے پر لے آیا۔ اس کے بحفاظت دوسرے کنارے پر پہنچتے ہی پچھلی چاروں چیونٹیوں نے اس کے بنائے گئے راستے پر ندی پار کی اور پھر ہم ندی کی دوسری کھاڑی کو پار کرنے لگے جس کے بعد ندی میں ریت سے بنا ایک بہت بڑا بیلہ آگیا جس کے بالکل درمیان ندی کے اندر زندہ پیر موجود تھا۔

بیلے کے وسط میں دس سے پندرہ فٹ کی قدرتی اونچائی تھی جس کے اوپر ایک مزار تھا۔ یہاں پر کوئی قبر نہ تھی بس مزار تھا۔ ایک مسجد بنی ہوئی تھی اور ساتھ ہی ایک برآمدہ۔ اس درگاہ کے اطراف میں تین چار فٹ اونچا اینٹوں کا چبوترہ بنا ہوا تھا اور درگاہ کو اونچے گھنے پرانے درختوں نے اپنے نیچے چھپایا ہوا تھا جس سے ماحول اور پراسرار نظر آتا تھا۔ ان درختوں پر کثیر تعداد میں رنگ برنگے کپڑے لٹکے ہوئے تھے جن میں بڑی تعداد میں دلھا کے پہننے والے کلاہ بھی لٹکتے نظر آئے۔

ہماری چیونٹیاں اس درگاہ کے اطراف بیلے پر پارک ہو چکی تھیں۔ اندر برآمدے میں چار بندے بیٹھے کسی ذکر میں مشغول تھے ان میں سے ایک چبوترے سے اتر کر ہمارے پاس آیا اور خاموشی سے ہمیں دیکھنے لگا۔ ہم نے یوں اچانک وارد ہو کر شائد ان کے مراقبے کو خراب کر دیا تھا۔

درگاہ کے باہر لگے نلکے سے ہماری ٹیم کے لوگ پانی پینے لگے۔ندی کے پانی کی پیمائش کرنے اور پانی کی کوالٹی کی جانچ کرنے والی ٹیم کو یہ جگہ پسند آئی تھی۔ لہذا انہوں نے اپنا اسٹیشن یہاں لگانے کا فیصلہ کیا۔ وہ بوٹ اتار کر ندی کے پانی میں اترنے کی تیاری کرنے لگے۔

ٹیم کے باقی لوگوں کو میں نے ایک گاڑی ادھر چھوڑ کر دوسری گاڑیوں میں اگلی کھاڑی پار کرکے دوسرے کنارے پر موجود گاوں کی طرف جانے کا کہا۔ گاوں ایک پہاڑ کے دامن میں آباد تھا اور میرا پروگرام اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر سروے اسٹیشن لگوانے کا تھا۔

مزار کے چبوترے سے اترنے والا شخص ہماری بھاگ دوڑ دیکھ کر مسکرایا تھا اور میری نظر اس کی مسکراہٹ پر رک گئی تھی۔ میں نے اپنی پانی پیمائش ٹیم کے ایک بندے کو بلایا اور اس کے کان میں آہستگی سے سرگوشی کی کہ اس شخص سے گپ شپ لگا کر مزار کے متعلق معلومات ضرور لینا۔

ہم گاوں کے پاس پہنچ گئے تھے جہاں پر میں نے اپنی سوشل اور ماحولیاتی ٹیم کے ممبران کو کہا کہ آپ لوگ گاوں میں پھیل جائیں اور یہاں کے سماج اور لوگوں کی خواہشات کو ٹٹو لیں۔ مسائل کی جانچ کریں اور پانی کی ضروریات کا اندازہ لگائیں۔

میں پتھروں کی جانچ کرنے والی ٹیم، سروے ٹیم اور ڈیم کے ماہر انجنئیرز کو لے کر سڑک کے اس بلند ترین مقام کی طرف لپکا جہاں گاڑیاں چھوڑ کر ہمیں کو پیمائی شروع کرنی تھی ۔ گاڑی سے اتر کر جب چوٹی کی طرف اوپر دیکھا تو یہ خاردار گھنی جھاڑیوں سے پر تھی جن کے لامتناہی کانٹے ہمارے جسموں پر کٹ لگا کر ہمارے خون سے لاہوری چٹخاروں کا مزہ لینے کو بے تاب تھے۔ ہم پچھلی آتھ دنوں سے پوٹھوہار میں گھوم رہے تھے لیکن یہ چوٹی ہمیں سب سے بلند اور دشوار لگ رہی تھی۔

ہم اللہ کا نام لے کر آہستہ آہستہ اوپر چڑھنے لگے۔یہ چڑھائی توقع سے زیادہ دشوار ثابت ہورہی تھی کیونکہ جھاڑیوں نے اس کے عمودی پن کو چھپا رکھا تھا۔ احسن رشید سب سے آگے جیالوجیکل ہتھوڑے سے جھاڑیوں میں راستہ بناتا جارہا تھا لیکن یہ اتنی زیادہ تھیں کہ ان میں سے بمشکل گزرا جاسکتا تھا۔ مجھے سب سے زیادہ اپنے سروئیر اظہر کا خیال آرہا تھا جو کہ کئی کلو وزنی ایکو پمنٹ کندھے پر اٹھائے اوپر چڑھ رہا تھا ۔ اس کے ساتھ اس کا اسسٹنٹ سروئیر ظہیر تھا جس نے راڈ اور باقی سامان پکڑا ہوا تھا۔ سخت گرمی اور حبس تھا اور دوپہر کا وقت۔ سب کی پانی کو بوتلیں خالی ہورہی تھیں اور واحد سہارہ سروئیر کے پاس موجود کولر نظر آرہا تھا جو کہ آہستہ آہستہ ہمارے ساتھ چڑھائی چڑھ رہا تھا۔

نیچے زندہ پیر پر دھونی جما دی گئی تھی۔ندی کے عین وسط میں موجود اس مقبرے کو ندی میں آنے والا کوئی بڑے سے بڑا سیلاب بھی نقصان نہیں پہنچا سکا۔ پچھلے پچاس سال سے کئی ٹیمیں اس علاقے کا دورہ کرچکی تھیں لیکن وہ اس مقبرے کا کچھ نہیں بگاڑ سکی تھیں ۔“اس ٹیم نے بھی خوار ہو کر واپس جانا ہے۔ ہمیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں” مسکرانے والے بندے نے نیچے ہماری پانی پیمائش ٹیم کے ممبر کو بتایا تھا۔ اس نے بڑے اطمینان سے کہا تھا “بابا اپنے آپ کو خود بچا لے گا”۔

گاوں میں جانے والی سماجیات کی ٹیم ممبران کو میں نے لوگوں سے ڈھکے چھپے الفاظ میں بات چیت کرنے کا کہا تھا۔ کیوں کہ ہم ابھی ابتدائی جانچ کرنے آئے تھے۔ پتہ نہیں اس مقام کی موزونیت کے بارے کیا فیصلہ ہونا تھا لیکن کسی نے گاوں میں افواہ اڑا دی تھی کہ یہ گاوں ڈیم میں ڈوب جائے گا۔ میں نے اپنے لوگوں کو احتیاط برتنے کا کہا تھا۔ مجھے سب سے زیادہ پریشانی سروے ٹیم کے حوالے سے تھی کیوں کہ انہوں نے گاوں اور ندی میں جاکر پیمائشیں لینا تھیں جہاں کوئی بھی ان کے ساتھ الجھ سکتا تھا۔

تاہم یہ گاوں ابھی تک خاموش تھا۔ لوگ ہمیں ندی میں پھرتا اور پہاڑوں پر چڑھتا دیکھ کر چپ تھے۔وہ ہم سے لاتعلق تھے اور یہی بات مجھے اور زیادہ پریشان کئے جارہی تھی ۔۔۔۔

خدا خدا کرکے چڑھائی کا سفر طے ہوا جس کے دوران ہم پسینے سے بدحال ہوگئے۔ میرے سینے میں آکسیجن کی کمی سے درد ہو رہا تھا اور طرح طرح کے خیالات آنا شروع ہو چکے تھے۔ آخر وہ بندہ ہمیں پہاڑ کی طرف جاتا دیکھ کر ہنس کیوں رہا تھا؟۔۔۔۔

چوٹی تک پہنچ کر ہم سب ہانپنے لگے تھے اور ایک پتھر پر بیٹھ کر کافی دیر تک سانس بحال کرتے رہے۔ چوٹی سے ایک بہت پیارا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ سرسبز چوٹیاں، ان کے درمیان سرخ رنگ بہتا پانی، پہاڑی ڈھلان پر تیزی سے اوپر آتا گاوں اور اس کے پیچھے تا حد نگاہ وسیع وعریض دریائی میدان۔

سروے اسٹیشن لگ چکا تھا اور ہم نے پتھروں کی جانچ شروع کردی تھی۔ ڈیم انجنئیرز اور اس کے ساتھی اسٹرکچر کی مناسب جگہ دیکھنے پہاڑی پر آگے نکل گئے تھے جب کہ میں نیچے گاوں میں پارک اپنی چیونٹیوں کو دیکھ رہا تھا۔

سروئیر نے ایک گاڑی پر اپنا بندہ بٹھا کر وسیع وعریض دریائی میدان میں ادھر ادھر بھگانا شروع کیا ہوا تھا۔ میں نے اسے ندی کے عین وسط میں موجود مزار کی بلندی پڑھنے کا بطور خاص کہا تھا جس سے فارغ ہونے کے بعد اب وہ پانی میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا۔

ہماری ٹیم کو وہاں کام کرتے بہت وقت گزر چکا تھا لیکن ابھی تک کسی طرف سے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی تھی اور یہ ایک غیر معمولی بات تھی۔ تاہم چوٹی سے نظارہ کرنے کے بعد اندازہ ہوگیا تھا کہ آبادی کے پھیلاؤ اور مزہبی مقامات کی موجودگی کی وجہ سے ہمیں شائد ڈیم سائٹ شفٹ کرنا پڑے۔

میں نے وقت کا حساب کتاب لگایا تا کہ سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے کوئی متبادل جگہ دیکھ لی جائے اور سروئیر کو وہاں چھوڑ کر باقی ٹیم کے ساتھ نیچے اترنا شروع کیا۔ پونے گھنٹے کی اتر ائی کے بعد ہم ایک مرتبہ پھر گاڑیوں میں بیٹھ کر مزار کے پاس سے دریائی بیلے میں اتر چکے تھے۔

مزار پر دھونی جم چکی تھی۔اس بندے کے چہرے پر پراسرار سی مسکراہٹ جاری تھی۔ وہ ہمارے سروئیر کی پانی میں مست گھوڑی کی طرح بھاگتی گاڑی کو دیکھ رہا تھا جو چند سیکنڈ کے لئے کہیں رکتی اور دوبارہ بھاگ پڑتی۔اس دوران سروئیر ریڈنگ لے لیتا۔

ہم نے دریا میں پہاڑی کے ساتھ ساتھ دائیں جانب جانے کا قصد کیا اور روانگی پکڑی ہی تھی کہ سروئیر کی سفید گھوڑی دلدلی پانی میں پھنس چکی تھی۔ وہ دلدل سے نکلنے کے لئے جتنا زور لگاتی اتنا ہی نیچے بیٹھتی اور بالآخر اس کے پہئے سارے کے سارے زمین میں دھنس گئے۔ اسے ریسکیو کرنے کے لئے ایک اور گاڑی کو بھیج کر ہم آگے روانہ ہوگئے تاکہ مغرب سے پہلے دوسری سائٹ دیکھ لیں۔

ہماری راہنمائی ایک مقامی ٹیچر کر رہے تھے جوکہ انتہائی کم گو آدمی تھی۔وہ ہمیں دریا کے ساتھ ساتھ ایک ایسے دوراہے پر لے گئے کہ جہاں سے آگے صرف پیدل کا پہاڑی راستہ تھا اور ادھر سے سورج غروب ہوچکا تھا۔ موبائل سگنل ندارد تھے اور بالآخر میں نے پیدل ٹیم کو واپسی کا حکم دے دیا۔ ہمارے دن کا اختتام ایک تنگ پتھریلے درے پر ناکامی سے ہورہا تھا۔ یہ ایک سخت دن تھا۔

ندی کے اندر واپسی کا سفر اندھیرے میں شروع ہوا اور چند کلومیٹر واپس آنے بعد جیسے ہی موبائل سگنل آنا شروع ہوئے تو پتہ چلا کہ سفید گھوڑی کو بچاتے ہوئے ہماری کالی چیونٹی بھی دلدل میں پھنس چکی ہے۔ میں نے گاڑیاں تیز واپس بھگانے کا کہا جو کہ اندھیرے اور پتھریلے دریائی میدان پر ایک مشکل کام تھا۔ چشم تصور میں مجھے پورا گاوں ہماری گاڑیوں کا تماشا دیکھتے ہوئے نظر آنے لگا۔

کالی چیونٹی باہر آچکی تھی لیکن سفید گھوڑی ابھی بھی دلدل میں گھڑی تھی۔ رات کے آتھ بج چکے تھے۔ مزار پر ایک دیا روشن تھا۔ ایک سایہ وہاں نظر آرہا تھا۔ ہم نے گاڑیاں پارک کرکے لائنیں جلائے رکھیں۔ بیلچے سے کافی کھدائی کرنے کے باوجود بھی گاڑی پھنسی ہوئی تھی۔ اس کی روشنیوں میں اردگرد کی دلدلی جھاڑیوں کے سائے بڑے ڈراونے لگ رہے تھے۔ ندی کے پانی کے اندر سے مینڈک بولنا شروع ہوگئے تھے۔ندی کا سرخ پانی بے رنگ ہوچکا تھا اور گاوں سے منگوایا گیا ٹریکٹر بھی گاڑی کو باہر گھینچ کر نہ نکال سکا تھا۔

اس اندھیرے میں اب گاوں کے لوگ بھی آہستہ آہستہ ندی میں اتر کر جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔کچھ نوجوان موٹر سائیکل پر پڑوس کے گاوں بھیج دئے گئے تاکہ ہل چلانے والا بھاری ٹریکٹر منگوایا جا سکے جو گاڑی کے اگلے ٹائر اٹھا کر دلدل سے باہر کھینچ سکے۔ عجیب لوگ تھے یہ گاوں والے بھی جو ہمیں خوار ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ بلکہ وہ جلد از جلد ہماری وہاں سے روانگی چاہتے تھے۔ وہ اپنا سکون واپس چاہتے تھے۔ان کے لبوں پر کوئی شکوہ، کوئی طعنہ نہیں تھا۔

آدھے گھنٹے کی مزیذ تگ و دو کے بعد سفید گھوڑی کو بڑا ٹریکٹر ایک ہیرو کی طرح نکال لایا تھا۔ ٹریکٹر والا ہم سے اس مدد کرنے کا کوئی معاوضہ لینے کو تیار نہیں تھا۔ وہ ڈیزل کے پیسے بھی نہیں لے رہا تھا۔ چیونٹیاں رات کے اندھیرے میں واپسی کو تیار تھیں۔ مزار کے درختوں سے دھواں نکلنا کم ہو گیا تھا۔ چبوترے پر ہلنے والا سایہ نیچے اتر کر روشنی میں آگیا تھا ۔ وہ ہمیں جاتا دیکھ کر مسکرا رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو “یہ ٹیم بھی خوار ہو کر جارہی ہے”۔

میں وہاں اگلے چند دنوں میں واپس آنے کا سوچ رہا تھا۔ گاڑی میں خاموشی تھی۔گاڑی انتہائی ناہموار سڑک پر واپس جارہی تھی۔پہاڑی ڈھلوان پر اوپر نیچے بنے گاوں کے گھروں میں سکون تھا ۔۔۔ڈھوک سکون سونے کی تیاری کرہا تھا۔مزار سے دھواں اٹھنا بند ہوچکا تھا۔۔۔

Leave a reply