دوہرا میعار تحریر: سجاد قمر

0
29

ﷲ سبحانہ و تعالی کا روحِ عرض پر ایک اصول رہا ہے کہ جب بھی کوئی قوم اس (ﷲ)کے دئیے ہوئے مہم/راستے پر نہیں چلی اس(ﷲ) نے اس قوم کو تباہ کر دیا یا اس سے اپنی رحمت کے سائے اُٹھا لیے اور ان کو کھلی چھُوٹ دے دی گئی کہ جو کرنا ہے کرو ایک دن میری ہی طرف پلٹ کر آؤ گے۔ چھ سو سال حکومت کی عربوں نے اور بلاآخر ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ پھر رحمت کے سائے ترکوں کے حصے میں آئے پھر برصغیر پر پڑے اور ستائیسویں رات یعنی شبِ قدر کو پاکستان ایک تحفہ کی صورت میں نازل ہوا۔ دنیا میں آزادی کی بہت سی تحریکیں چلی، کوئی عرب قومیت پر، کوئی نسل اور رنگ پر لیکن تحریک پاکستان وہ واحد تحریک تھی جو اسلام کے نام پر چلی کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ۔ یہ پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا مسلمانوں کی حفاظت کے لیے بنا، آج اسی میں رہنے والے مسلمان صرف نام کے مسلمان ہیں۔ اس ملک کو ﷲ سبحانہ و تعالی نے خاص مقصد کے کیے ہمیں تحفہ میں دیا لاکھوں مسلمانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ملنے والے ملک میں ہر جگہ دوہرا میعار پایا جاتا ہے۔ یہاں رہنے والا ہر شخص اپنے چند ٹکے کے فائدہ کے لیے اسلام مذہب، دین، ایمان، قانون اور ریاست کا نقصان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ یہاں ایک گلی محلے سے لے کر گاؤں شہر اور پھر صوبوں میں بھی نسلی تناسب عام ہے اسلام تو دور انسانیت کی بھی قدر نہیں۔ آج کل ہر جگہ سیاست چل رہی ہے وہ گھر ہو یا رشتہ دار، گاؤں ہو یا شہر، صوبہ ہو یا ملک۔ یہاں ایک پڑھے لکھے انسان کو ہزاروں جتن کرنے پڑتے ہیں ملازمت حاصل کرنے کے لیے لیکن ایک ان پڑھ جاہل چور ڈاکو وزیراعظم تک بن جاتا ہے۔ ہر ایک بندہ خود کو ایک اسلامی مذہبی مان کرکے دوسروں کو کافر یہودی ثابت کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیتا ہے۔ عوام ایک پڑھے لکھے یا مذہبی بندے کو ووٹ نہیں دیتی اور چور ڈاکو ، کرپشن سے بھرپور کو وزیر تک بنا دیتی ہے۔ ایک وقت کی روٹی چرانے والے کو مار مار لہولہان کر دیتی ہے اور اربوں چوری کرنے والوں کے نام کے نعرے لگتے ہیں۔ کسی محکمے میں ایک ایماندار آفیسر آنے سے سارے کرپٹ آفسران اس کے خلاف ہوجاتے ہیں۔ دوسروں کا حق تو دور کی بات ہے اپنے ہی گھر کے افراد اور رشتہ داروں کا حق کھانا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ہر چیز میں ملاوٹ کرنے کی عادت کو دن بدن بڑھاتے ہیں اور الزام اپنے ہی چُنے ہوئے حکمرانوں کو دیتے ہیں۔ اپنی پسند کی چیزیں اقتدار مل جائے تو ٹھیک ورنہ اسلام کیا ریاست کیا ہر ایک کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ صدقہ خیرات کرنے والے ملک ہونے کے ساتھ ہم بےایمانی میں سب سے اُوپر ہیں۔ اس میں کسی کافر، یہودی اور عیسائیوں کا عمل دخل نہیں بلکہ اپنا ہی دوہرا میعار ہے جو ہم کو ہمارے کردار اور عادات پر پردہ ڈال کر صرف دوسروں کی خامیوں کو دیکھنے اور پرکھنے پر آمادہ کرتا ہے۔ آج کل پاکستان میں رہنے والے پاکستانی اور مسلمان کم پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان زیادہ نظر آتے ہیں۔ بشتر افراد سیاسی پارٹیوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ کسی بھی ملک و ریاست کی سلامتی، امن و امان میں کلیدی کردار صحافت اور میڈیا کا ہوتا ہے جب کہ آج کل میڈیا بھی سیاست زد میں آیا ہوا ہے۔ یہ نہیں کہ سب ہی ایک طرح کے ہیں بہت سے صحافی آج بھی دن رات محنت کرکے ریاست، اسلام اور عوام کے مفاد کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اب عوام کو سوچنا کہ ہمیں خود کو ٹھیک کر کے ایک اچھے مسلمان اور پاکستانی بننا ہے تاکہ ہم سے جو ﷲ نے بحثیت قوم کام لینا ہے وہ بھی کر سکیں اور دنیا کے ساتھ ساتھ ہمارے آخرت بھی سنور سکے۔ @SajjadHQamar

Leave a reply