ڈھونڈتے ہیں اُسے ، ثروت نجمی

0
27

ڈھونڈتے ہیں اُسے
ہر گلی ، ہر نگر
کھو گیا ہے مرا
وہ فقیرِ شہر

جِس کی باتوں میں تھی
کس قدر سادگی
اُس نے اُمید کی
ہم کو دی روشنی

بے کسوں کے لئے
آسرا تھا وہی
بے گھروں کا فقط
آشیاں تھا وہی

جس کا جھولا بنا
زندگی کا سبب
آدمی تھا عجب
جانتے ہیں یہ سب

وہ فرشتہ نُما
گر نہیں ہے تو کیا
چھوڑ کر ہے گیا
ایک جلتا دیا

آو ہم بھی کوئی
کام ایسا کریں
نام ایدھی کا سب
مل کے روشن کریں

ڈھونڈنا کیا اُسے
ہر گلی ہر نگر
کر چکا ہے مری
دل کی بستی میں گھر

وہ فقیرِ شہر
وہ فقیرِ شہر

ثروت نجمی

Leave a reply