دیامر میں خواتین کی تعلیمی پسماندگی کی وجوہات ۔تحریر: روشن دین دیامری

0
67

کہتے ہیں اگرایک مرد پڑھا لکھا ہوتو ایک فرد پڑھا لکھا مانا جاتا لیکن جب ایک عورت پڑھی لکھی ہوتو ایک معاشرہ پڑھا لکھا بنا دیتے ہے ۔گلگت بلتستان کے ضلع دیامیر میں خواتین کے تعلیم پہ ایک عرصہ تک پابندی لگائی گی تھی جب کوئی سکول بنایا جاتا تو شر پسند عناصر اس کو بارود سے اڑادیتےتھے اکثر بیشتر والدین اپنے بچوں کو تعلیم دینا پسند ہی نہیں کرتے تھے اس کے وجہ یا تو مجبوری تھی حالت سے تنگ اکے یا قبائلی ذہنیت تھی۔ ہمارا ہاں اکثر جن کو پڑھایا جاتا تھا بھی تو ساتویں یا اٹھاوی پاس کرلیتے تو شادی کروادی جاتی تھی۔یہ صورتحال چند علاقوں کے علاوہ اج بھی جاری و ساری ہے۔ دیامر کے شہر چلاس میں تو خواتین کو تعلیمی سہولیات ہیں اس کے علاوہ دیامر کی تقریبا دو تحصیلوں داریل تانگیر اور تحصیل چلاس کے سات نالہ جات میں اج بھی وہی پرانا رواج جاری ہے۔

خواتین کو تعلیم دینے سے مراد ان کے ہاں بے دینی پھیلانے کی لی جاتی ہے ۔اکثر رشتہ دار جب کسی ایسی گھر ائیں جہاں کوئی بچی سکول جاتی ہوتو انہیں نصیحت کی جاتی ہے اس کو مذید نا پڑھائیں ۔اس کی شادی کی عمر ہوگی شادی کروا دیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ میرے پاس ایسے سیکڑوں واقعات ہیں جن کو لکھنے بیٹھ جاو تو بیسوں کالم لکھے جا سکتے ہیں۔(ایک واقع ابھی کے دو ہزار اکیس کا بتاتا چلو میں گاوں سے اسلام اباد ارہا تھا تو میرے اگلی سیٹ پہ ایک ہمارے جاننے والی اپنے بچی کے ساتھ سفر کر رہے تھے ۔چونکہ ان علاقوں میں خواتین کے تعلیم نہی تو میں نے سلام دعا کے بعد پوچھا پوچھا انکل سس (بہن) بیمار ہے کیا ۔ہمارے لوگ خواتین کو شہروں میں صرف انتہائی بیماری کی صورت میں لے کر اتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا نہی بیٹھا یہ مدرسہ پڑھتی یے۔ اس کو مدرسہ چھوڑنے ایا ہوں خیر ہمارے گاوں سے اسلام اباد کا سفر تقریبا تیرا چودہ گھنٹوں کا ہے تو میرے ان سے باتیں چلتی رہی مجھے جب بھی کوئی ملتا ہے تو میں خواتین کے تعلیم کی ترغیب دیتا ہوں ۔خیر ہم لوگ اسلام انے تک شاہد اس نے مجھے سمجھ گیا ہوگا انہوں نے کہاکسی کو بتانا نہیں یہ کالج میں پڑھتی ہے اس کو پڑھنے کا شوق ہے اس نے مجھ سے واعدہ کیا اگر یہ ایف ایس سی کے بعد ڈاکٹر نہ بن سکی تو اگے پڑھنے کی ضد نہی کرے گی اس کے خواہش کے لے میں نے یہ بہانہ بنایا ہے ۔)

اس لے میں کوشش کرونگا اس کو مختصر کر کے لکھوں۔ اس ساری صورت حال میں ریاست کا بھی بڑھا رول رہا ریاست نے ان علاقوں کو جان بجھ کے ان پڑھ رکھا اور ان کو شعور نہیں دیا گیا ۔ایک طرف گلگت بلتستان کا لٹریسی ریٹ پاکستان میں سب سے ذیادہ اور دوسرے طرف ایک ضلع ایسا جہاں خواتین کی تعلیم با مشکل چھے فیصد ہے ۔تعلیم کا فقدان کی وجہ سے ان علاقوں میں قتل غارت عام رہا ہے لوگوں میں دشمنی اس قدر بڑھ گی تھی کے مجھے یاد جب ہم سکول میں تھے تو ہم اس بات بہث کرتے تھے کس کس خاندان میں دشمنیاں نہیں ہیں تو ہمیں کوئی ایسی فیملی نہیں ملتی جو دشمن داری سے خالی ہوتی ۔ہمارے ہاں اسلحہ کا اس قدر رواج تھا کے ہم بندوقیں گن گن کے ایک دوسرے کو نیچے دیکھاتے تھے۔ باوجود اس کے کبھی حکومت کے طرف سے کوئی پالیسی واضع نہیں رہی ۔ہمارے ان علاقوں سے افغانستان کشمیر میں بیسیوں جوان شہید ہوگے ہیں۔ اور گذشتہ دو دہائی سے کچھ پالیسیاں بدل گے جسے مشرف کے دور میں ان علاقوں کے طرف توجہ دی گی کچھ کالج سکول بنائے گئے۔
جاری ہے۔

Leave a reply